• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دہلی اور آگرہ کے ۱۰؍ تاریخی مقامات

Updated: May 11, 2024, 8:38 PM IST | Afzal Usmani

ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں کئی ایسے مقامات ہیں جن کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ مقامات آج بھی زائرین کو حیران کردیتے ہیں۔اسی طرح آگرہ بھی تاریخی اعتبار سے ایک اہم شہر ہے جہاں سیاحوں کیلئے کئی یادگاریں موجود ہیں۔ پڑھئے دہلی اور آگرہ کے ۱۰؍ تاریخی مقامات۔ تمام تصاویر: آئی این این / یوٹیوب

X جامع مسجد(Jama Masjid): ہندوستان کی بڑی مسجدوں میں جامع مسجد کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے ۱۶۴۴ء سے ۱۶۵۶ء کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں کئی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ اسے سفید سنگ مرمر اور لال پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کو ۵؍ ہزار سے زیادہ مزدوروں نے بنایا ہے۔ اس مسجد کو ایک ملین روپے کی لاگت سے بنایا گیا تھا۔ جامع مسجد کا افتتاح بخارا (ازبکستان) کے ایک امام نے کیا تھا۔ مسجد میں بیک وقت ۲۵؍ ہزار مصلیان نماز ادا کرسکتے ہیں۔
1/10

جامع مسجد(Jama Masjid): ہندوستان کی بڑی مسجدوں میں جامع مسجد کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے ۱۶۴۴ء سے ۱۶۵۶ء کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں کئی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ اسے سفید سنگ مرمر اور لال پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کو ۵؍ ہزار سے زیادہ مزدوروں نے بنایا ہے۔ اس مسجد کو ایک ملین روپے کی لاگت سے بنایا گیا تھا۔ جامع مسجد کا افتتاح بخارا (ازبکستان) کے ایک امام نے کیا تھا۔ مسجد میں بیک وقت ۲۵؍ ہزار مصلیان نماز ادا کرسکتے ہیں۔

X لال قلعہ(Red Fort): لال قلعہ کو ۱۰؍ سال کے عرصہ میں بنایا گیا تھا۔ یہ اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب شاہجہاں نے ہندوستان کا دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کردیا تھا۔ اسے اس وقت قلعۂ مبارک کہا جاتا تھا۔ دراصل اسے لال اور سفید پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ تاہم، بعد میں جب پتھروں کا چونا اترنے لگا تو برطانوی حکمرانوں نے اس پر لال رنگ لگا دیا۔
2/10

لال قلعہ(Red Fort): لال قلعہ کو ۱۰؍ سال کے عرصہ میں بنایا گیا تھا۔ یہ اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب شاہجہاں نے ہندوستان کا دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کردیا تھا۔ اسے اس وقت قلعۂ مبارک کہا جاتا تھا۔ دراصل اسے لال اور سفید پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ تاہم، بعد میں جب پتھروں کا چونا اترنے لگا تو برطانوی حکمرانوں نے اس پر لال رنگ لگا دیا۔

X قطب مینار(Qutb Minar): ہندوستان کے مشہور تاریخی مقامات میں سے ایک قطب مینار ۷۳؍ میٹر (۲۳۹ء۵؍ فٹ) بلند ہے۔ مینار میں ۳۷۹؍ سیڑھیاں ہیں۔ آپ جیسے جیسے نیچے سے اوپر کی جانب جائیں گے مینار کا قطر کم ہوتا جائے گا۔ دہلی سلطنت کے بانی قطب الدین ایبک نے اسے کی تعمیر ۱۱۹۲ء میں شروع کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے داماد التمش ایبک نے اسے مکمل کروایا۔ قطب مینار کے نیچے قوت الاسلام مسجد بھی واقع ہے۔
3/10

قطب مینار(Qutb Minar): ہندوستان کے مشہور تاریخی مقامات میں سے ایک قطب مینار ۷۳؍ میٹر (۲۳۹ء۵؍ فٹ) بلند ہے۔ مینار میں ۳۷۹؍ سیڑھیاں ہیں۔ آپ جیسے جیسے نیچے سے اوپر کی جانب جائیں گے مینار کا قطر کم ہوتا جائے گا۔ دہلی سلطنت کے بانی قطب الدین ایبک نے اسے کی تعمیر ۱۱۹۲ء میں شروع کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے داماد التمش ایبک نے اسے مکمل کروایا۔ قطب مینار کے نیچے قوت الاسلام مسجد بھی واقع ہے۔

X انڈیا گیٹ (India Gate): دہلی میں دیکھنے کے لیے سب سے مشہور جگہ ہے۔ یہ تاریخی دروازہ راج پتھ پر واقع ہے۔ اس کے آس پاس بہت سے شاندار مقامات ہیں جیسے راشٹرپتی بھون اور وار میموریل۔ انڈیا گیٹ پر صبح سے شام تک لوگوں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ویک اینڈ پر یہاں آتے ہیں۔ تہواروں کے دوران بھی انڈیا گیٹ پر بہت سارے سیاح آتے ہیں۔ 
4/10

انڈیا گیٹ (India Gate): دہلی میں دیکھنے کے لیے سب سے مشہور جگہ ہے۔ یہ تاریخی دروازہ راج پتھ پر واقع ہے۔ اس کے آس پاس بہت سے شاندار مقامات ہیں جیسے راشٹرپتی بھون اور وار میموریل۔ انڈیا گیٹ پر صبح سے شام تک لوگوں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ویک اینڈ پر یہاں آتے ہیں۔ تہواروں کے دوران بھی انڈیا گیٹ پر بہت سارے سیاح آتے ہیں۔ 

X اگرسین کی باولی (Agrasen Ki Baoli): ایک محفوظ آثار قدیمہ کی جگہ ہے، جو نئی دہلی میں کناٹ پلیس (سی پی )کے قریب واقع ہے۔ یہ جگہ ایک ڈراؤنی جگہ کے طور پر مشہور ہے۔ اس اسٹیپ ویل میں تقریباً ۱۰۵؍ سیڑھیاں ہیں۔ یہ جگہ دیکھنے میں بہت ہی حیرت انگیز ہے اور یہاں آپ کو دہلی کی ہلچل سے دور امن دیکھنے کو ملے گا۔ یہاں جانے کے لیے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ 
5/10

اگرسین کی باولی (Agrasen Ki Baoli): ایک محفوظ آثار قدیمہ کی جگہ ہے، جو نئی دہلی میں کناٹ پلیس (سی پی )کے قریب واقع ہے۔ یہ جگہ ایک ڈراؤنی جگہ کے طور پر مشہور ہے۔ اس اسٹیپ ویل میں تقریباً ۱۰۵؍ سیڑھیاں ہیں۔ یہ جگہ دیکھنے میں بہت ہی حیرت انگیز ہے اور یہاں آپ کو دہلی کی ہلچل سے دور امن دیکھنے کو ملے گا۔ یہاں جانے کے لیے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ 

X آگرہ کا قلعہ: (Agra Fort): ۱۶۳۸ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے ۲ء۵؍ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔
6/10

آگرہ کا قلعہ: (Agra Fort): ۱۶۳۸ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے ۲ء۵؍ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔

X تاج محل(Taj Mahal) : ۱۶۳۲ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں ۲۲؍ سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرح شاپنگ کامپلیکس اور ہوٹل بنایا جارہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے ۴؍ گنا بڑا ہوگا۔
7/10

تاج محل(Taj Mahal) : ۱۶۳۲ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں ۲۲؍ سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرح شاپنگ کامپلیکس اور ہوٹل بنایا جارہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے ۴؍ گنا بڑا ہوگا۔

X ہمایوں کا مقبرہ(Humayun`s Tomb): ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ۱۵؍ ویں صدی میں مغل شہنشاہ ہمایوں کی اہلیہ حمیدہ بانو بیگم نے اسے تعمیر کروایا تھا۔ اس مقبرے کے جنوب مغرب میںمغل شہنشاہ بابر کا بھی مقبرہ ہے۔
8/10

ہمایوں کا مقبرہ(Humayun`s Tomb): ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ۱۵؍ ویں صدی میں مغل شہنشاہ ہمایوں کی اہلیہ حمیدہ بانو بیگم نے اسے تعمیر کروایا تھا۔ اس مقبرے کے جنوب مغرب میںمغل شہنشاہ بابر کا بھی مقبرہ ہے۔

X اعتمادالدولہ کا مقبرہ(Tomb of I`timād-ud-Daulah): آگرہ کے قلعے سے ۳ء۶؍  کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ 
9/10

اعتمادالدولہ کا مقبرہ(Tomb of I`timād-ud-Daulah): آگرہ کے قلعے سے ۳ء۶؍  کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ 

X اکبر کا مقبرہ(Akbar`s tomb): یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے ۸؍ کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔
10/10

اکبر کا مقبرہ(Akbar`s tomb): یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے ۸؍ کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK