بھوپال اور برہان پورکے۱۲؍ تاریخی و سیاحتی مقامات
Updated: Jan 24, 2025, 6:06 PM IST | Afzal Usmani
بھوپال شہر ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کا دارلخلافہ ہے۔ اس شہر کو جھیلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ہونے والے بھوپال گیس سانحہ کے بعد لوگوں کی توجہ اس شہر کی جانب مبذول ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر کو بھی اسمارٹ سٹی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ۱۱؍ ویں صدی میں اس شہر کی بنیاد راجہ بھوج نے رکھی تھی۔ بھوپال کا پرانا نام بھوجپال ہے۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کا شہر برہان پور ممبئی سے ۵۴۰؍ کلومیٹر دور ہے۔ ۱۳۸۸ء میں سلطان ملک ناصر خان نے صوفی برہان الدین کے نام سے اس شہر کو منسوب کیا تھا۔ ۱۴۵۷ء سے ۱۵۰۱ء کے درمیان میران عادل دوم نے اس شہر میں بہت سے محل تعمیر کروائے۔ پڑھئے بھوپال اور برہان پور کے۱۲؍تاریخی و سیاحتی مقامات۔ تمام تصاویر: آئی این این / یوٹیوب
X
1/12
تاج المساجد (Taj-ul-Masajid): یہ مسجد موتیا تالاب کے کنارے بنائی گئی ہے، جس کا شمار ہندوستان کی بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ اس میں بیک وقت ایک لاکھ ۷۵؍ ہزار مصلیان نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اسے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۴۴ء سے ۱۸۶۰ء کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ تاہم، اس کا تعمیری کام ۱۹۰۱ء میں نواب شاہجہاں بیگم نے مکمل کروایا۔
X
2/12
گوہر محل (Gohar Mahal): اس شہر میں نوابوں نے کئی محل تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک گوہر محل ہے۔ دراصل یہ ایک مکان ہے جو محل کی طرح بنایا گیا ہے۔ یہ مغل اور ہندو آرکیٹیکٹ کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اس محل کو بھوپال کی پہلی خاتون حکمران قدسیہ بیگم سے منسوب کیا گیا ہے۔ انہیں شہر کے لوگ گوہر بیگم کہتے تھے۔ اس محل کی تعمیر ۱۸۲۰ء میں مکمل ہوئی تھی۔
X
3/12
شوکت محل اور صدر منزل (Shaukat Mahal and Sadar): شوکت محل ۱۹؍ ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے گوہر بیگم کی بیٹی سکندر نے تعمیر کروایا تھا۔ اس کا ڈیزائن مغلوں کی عمارتوں کے ڈیزائن سے بالکل مختلف تھا، جسے فرانسیسی آرکیٹکچر نے تیار کیا تھا۔
X
4/12
موتی مسجد (Moti Masjid): سفید سنگ مرمر کے سبب اسے موتی مسجد کہا جاتا ہے۔ سکندر جہاں بیگم نے اسے ۱۸۶۰ء میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کا ڈیزائن دہلی کی جامع مسجد سے مشابہ ہے۔ اسے بھوپال کی جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار سرخ اینٹوں سے بنائے گئے ہیں۔
X
5/12
رانی کملا پتی کا محل (Kamlapati Palace): رانی کملا پتی نظام شاہ کی اہلیہ تھیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ رانی پریوں سے بھی زیادہ حسین تھی۔ اس محل کو ۱۶۸۰ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ نظام شاہ نے یہ محل اپنی اہلیہ کو تحفے میں دیا تھا۔ تاہم، اب اس محل کا کچھ حصہ لوور لیک میں ڈوب گیا ہے۔
X
6/12
سانچی اسٹوپا (Sanchi Stupa): بھوپال سے ۴۶؍ کلومیٹر دور سانچی ہے۔ سانچی یہاں واقع بودھوں کے اسٹوپا کے سبب کافی مشہور ہے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہاں موجود اسٹوپا کو موریہ دور حکومت میں مہاراجہ اشوکا نے تعمیر کروایا تھا۔ اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ میں شامل کیا ہے۔
X
7/12
رائے سین کا قلعہ (Raisen Fort): یہ قلعہ بھوپال سے ۲۳؍ کلومیٹر دور رائے سین قصبے میں واقع ہے۔ اسے۱۲۰۰ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ کئی راجاؤں اور حکمرانوں کی رہائش گاہ تھا۔
X
8/12
جہاز محل (Jahaz Mahal): اس محل کو غیاث الدین خلجی نے ۱۵؍ ویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ محل تالاب کے اوپر بنایا گیا ہے۔ چونکہ دور سے یہ پانی پر تیرتا ہوا نظر آتا ہے اس لئے سلطان نے اس کا نام جہاز محل رکھا تھا۔
X
9/12
اسیر گڑھ کا قلعہ (Asirgarh Fort): برہان پور میں واقع اس قلعے کو اسیر گڑھ کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے، جسے آہیر حکمراں آسا آہیر نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ ۶۰؍ ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے، جو اَب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ تاہم، اسے دیکھنے کیلئے ہر سال ہزاروں لوگ یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔
X
10/12
شاہی قلعہ (Shahi Qila): بادشاہی قلعہ تاپتی دریا کے مشرقی کنارے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس قلعے کو برہان پور کےتاریخی مقامات میں سے اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ قلعہ ۱۶؍ ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
X
11/12
زنانہ حمام (Zenana Hammam): شاہی قلعے کے باقیات میں زنانہ حمام سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ یہ حمام ایرانی اور مغل ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔ اسے تاج محل کا بلیو پرنٹ بھی کہا جاتا ہے۔
X
12/12
شاہی جامع مسجد (Shahi Jama Masjid): یہ مسجد برہان پور کے وسط میں واقع ہے۔ اس کا تعمیراتی کام فاروقی دور حکومت میں شروع جبکہ مغل شہنشاہ اکبر کے دور اقتدارمیں ختم ہوا۔ اس کے محرابی ستون مسجد کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔