• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنریشن بیٖٹا: ۲۰۲۵ء کے متعلق ۱۹۲۵ء میں پیشین گوئی

Updated: Jan 9, 2025, 8:38 PM IST | Afzal Usmani

جنریشن بیٹا (یکم جنوری ۲۰۲۵ء تا ۳۱؍ دسمبر ۲۰۳۹ء) کی آمد ایسی دُنیا میں ہورہی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے برپا ہونے والے انقلاب کا مشاہدہ کررہی ہے، جس میں خود کار مشینوں (آٹومیشن) کا زور رہے گا، پائیداریت (Sustainability) پر خاصی توانائی صرف کی جارہی ہے، ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، عالمی شہریت (گلوبل سٹیزن شپ) کا موضوع زیر بحث ہے اور سماجی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں جس کا آغاز اس سے پہلے کی جنریشن دیکھ چکی ہے اور اب بھی دیکھ رہی ہے۔ ہم، پیش گوئیوں پر یقین نہیں رکھتے مگر ذہین لوگوں کے اندازوں کو مسترد نہیں کرتے چنانچہ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ اب سے ۱۰۰؍ سال پہلے (۱۹۲۵ء کے آس پاس) کے دانشوروں نے اِس نسل (۲۰۲۵ء کے آس پاس) کے بارے میں کیا کہا تھا۔ تمام تصاویر: آئی این این، آئی اسٹاک.

X ۱۹۰۲ء میں شعبۂ ادویات میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر رونالڈ رَوس (Ross) نے کہا تھا کہ اس دَور میں جو نسلیں آئینگی وہ سابقہ نسلوں کے مقابلے میں طویل عمر پائینگی کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفتوں کے سبب بیماریوں کی تشخیص اور علاج معالجہ کی سہولت بہتر ہوجائیگی اور زندگی بچانا اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا کہ پہلے تھا۔ ڈاکٹر رَوس نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکن ہے اس دَور کی نسلوں میں ایسے لوگ بھی ہوں جو ۱۵۰؍ سال کی عمر پائیں۔ 
1/5

۱۹۰۲ء میں شعبۂ ادویات میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر رونالڈ رَوس (Ross) نے کہا تھا کہ اس دَور میں جو نسلیں آئینگی وہ سابقہ نسلوں کے مقابلے میں طویل عمر پائینگی کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفتوں کے سبب بیماریوں کی تشخیص اور علاج معالجہ کی سہولت بہتر ہوجائیگی اور زندگی بچانا اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا کہ پہلے تھا۔ ڈاکٹر رَوس نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکن ہے اس دَور کی نسلوں میں ایسے لوگ بھی ہوں جو ۱۵۰؍ سال کی عمر پائیں۔ 

X ’’دی ٹائم مشین‘‘ کے ادیب ایچ جی ویلز نے اپنے دور سے ۱۰۰؍ سال بعد (یعنی موجودہ دور) کیلئے کہا تھا کہ صرف وہی ممالک اپنی بقاء کو یقینی بناسکیں گے جو سپرپاور ہوں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ، چین اور یورپ کی مثال دی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ممالک اپنی بقاء کی جدوجہد میں ناکام ہونگے! اس کامطلب یہ ہے کہ علمی، سماجی، معاشی اور سائنسی اُمور میں بالادستی مذکورہ ملکوں ہی کو حاصل رہے گی اور وہ ایک طرح سے پوری دُنیا کو کنٹرول کررہے ہونگے۔ آج انسانی عمر کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ قلب یا دیگر اعضاء کی پیوند کاری مشکل نہیں رہ گئی ہے۔ اور چند ہی ملکوں کا تسلط دُنیا کے نقشے پر عیاں ہے۔ 
2/5

’’دی ٹائم مشین‘‘ کے ادیب ایچ جی ویلز نے اپنے دور سے ۱۰۰؍ سال بعد (یعنی موجودہ دور) کیلئے کہا تھا کہ صرف وہی ممالک اپنی بقاء کو یقینی بناسکیں گے جو سپرپاور ہوں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ، چین اور یورپ کی مثال دی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ممالک اپنی بقاء کی جدوجہد میں ناکام ہونگے! اس کامطلب یہ ہے کہ علمی، سماجی، معاشی اور سائنسی اُمور میں بالادستی مذکورہ ملکوں ہی کو حاصل رہے گی اور وہ ایک طرح سے پوری دُنیا کو کنٹرول کررہے ہونگے۔ آج انسانی عمر کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ قلب یا دیگر اعضاء کی پیوند کاری مشکل نہیں رہ گئی ہے۔ اور چند ہی ملکوں کا تسلط دُنیا کے نقشے پر عیاں ہے۔ 

X پروفیسر لوویل ریڈ (جان ہاپکنس یونیورسٹی سے وابستہ) نے لکھا تھا کہ ۱۰۰؍ سال بعد یعنی ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۲۰۰؍ ملین پہنچ جائیگی جو ۱۹۲۵ء میں ۱۱۵؍ ملین تھی۔ اس اضافے کی وجہ سے امریکہ کو غذائی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے نئی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۳۴؍ کروڑ ہوگئی ہے اس کے باوجود امریکہ کو غذائی قلت کا سامنا نہیں ہے۔ 
3/5

پروفیسر لوویل ریڈ (جان ہاپکنس یونیورسٹی سے وابستہ) نے لکھا تھا کہ ۱۰۰؍ سال بعد یعنی ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۲۰۰؍ ملین پہنچ جائیگی جو ۱۹۲۵ء میں ۱۱۵؍ ملین تھی۔ اس اضافے کی وجہ سے امریکہ کو غذائی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے نئی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۳۴؍ کروڑ ہوگئی ہے اس کے باوجود امریکہ کو غذائی قلت کا سامنا نہیں ہے۔ 

X آئرلینڈ کے ماہر طبعیات و کیمیا ای ای فورنیئر نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک عالمی حکومت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۲۵ء میں شائع ہونے والی اپنی جس تصنیف (مستقبل کی جھلکیاں ) میں اُنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا اُس میں کہا گیا تھا کہ کرۂ ارض پر صرف ایک حکومت ہوگی اور صرف ایک زبان کا تسلط ہوگا۔ کئی نسلیں اور کئی ممالک تو ہوں گے مگر ان میں آمدورفت اور تجارت بے روک ٹوک جاری رہے گی۔ یہ خیال اس اعتبار سے جزوی طور پر درست کہا جاسکتا ہے کہ کرۂ ارض پر ایک زبان کے تسلط کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش تکنالوجی کی وجہ سے کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے، رہا پوری دُنیا میں ایک حکومت کا سوال تو اس کا کوئی اتہ پتہ اب تک نہیں ہے۔ عملاً یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ ۲۰۲۵ء میں اس کے برعکس دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفادات پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہے جن میں تجارتی مفادات کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ 
4/5

آئرلینڈ کے ماہر طبعیات و کیمیا ای ای فورنیئر نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک عالمی حکومت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۲۵ء میں شائع ہونے والی اپنی جس تصنیف (مستقبل کی جھلکیاں ) میں اُنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا اُس میں کہا گیا تھا کہ کرۂ ارض پر صرف ایک حکومت ہوگی اور صرف ایک زبان کا تسلط ہوگا۔ کئی نسلیں اور کئی ممالک تو ہوں گے مگر ان میں آمدورفت اور تجارت بے روک ٹوک جاری رہے گی۔ یہ خیال اس اعتبار سے جزوی طور پر درست کہا جاسکتا ہے کہ کرۂ ارض پر ایک زبان کے تسلط کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش تکنالوجی کی وجہ سے کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے، رہا پوری دُنیا میں ایک حکومت کا سوال تو اس کا کوئی اتہ پتہ اب تک نہیں ہے۔ عملاً یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ ۲۰۲۵ء میں اس کے برعکس دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفادات پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہے جن میں تجارتی مفادات کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ 

X لوتھیرن تھیولوجیکل سمینری، گٹس برگ، پینسلوانیا سے وابستہ ڈاکٹر اے آر وینٹز نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا جائیگا اور ماحول سے نائٹروجن کشید کرکے سنتھیٹک فوڈ (کیمیاوی طریقہ سے تیار کی گئی مصنوعی غذا) منظر عام پر ہوگا۔ ڈاکٹر وینٹز کا اندازہ بھی جزوی طور پر درست ثابت ہورہا ہے۔ ہم سائنسی پیش رفتوں کے جانکار نہیں ہیں اس لئے سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کیا جاچکا ہے تو اس کا علم نہیں ہے مگر جہاں تک مصنوعی غذا کا تعلق ہے، بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر پوری دُنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندوستانی بازار میں بھی۔ اس کی مثالیں سویا بین، سن فلاور سیڈ، سیسم، آئل کیک وغیرہ ہیں۔ 
5/5

لوتھیرن تھیولوجیکل سمینری، گٹس برگ، پینسلوانیا سے وابستہ ڈاکٹر اے آر وینٹز نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا جائیگا اور ماحول سے نائٹروجن کشید کرکے سنتھیٹک فوڈ (کیمیاوی طریقہ سے تیار کی گئی مصنوعی غذا) منظر عام پر ہوگا۔ ڈاکٹر وینٹز کا اندازہ بھی جزوی طور پر درست ثابت ہورہا ہے۔ ہم سائنسی پیش رفتوں کے جانکار نہیں ہیں اس لئے سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کیا جاچکا ہے تو اس کا علم نہیں ہے مگر جہاں تک مصنوعی غذا کا تعلق ہے، بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر پوری دُنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندوستانی بازار میں بھی۔ اس کی مثالیں سویا بین، سن فلاور سیڈ، سیسم، آئل کیک وغیرہ ہیں۔ 

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK