• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اردو کی ۱۰؍ مشہور کتابوں کا تعارف: دوسری قسط

Updated: Dec 26, 2023, 3:12 PM IST | Afzal Usmani

ایک اچھی کتاب کے مطالعہ سے انسان کبھی بھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرسکتا ہے۔اچھی کتاب کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ قاری کے ذہن پر دیر پا نقش ثبت کرنے میں کامیاب ہوتی ہےاور اس کےمطالعہ سے انسان خود کو بہتری اور کامیابی کی طرف گامزن کرنے کی عملی کوشش کرتا ہے۔ذیل میں ایسی ہی ۱۰؍ کتابوں کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیںجو اپنے اسلوب اور موضوع کے لحاظ سے بہترین خیال کی جاتی ہیں ۔تمام تصاویر:آئی این این ،یوٹیوب

X کتاب کا نام: گئو دان۔مصنف: منشی پریم چند۔ سن اشاعت: ۱۹۳۶ء:’گئودان ‘ کو منشی پریم چند کا شاہکار ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ پریم چند کا آخری طبع شدہ ناول ہے جس کی اشاعت۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی ۔ گئو دان پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا پھر اقبال بہادر ورما ساحر نے اسے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ یہ ناول ملک (ہندوستان) کے پسے ہوئے اور مظلوم کسانوں کی دکھ بھری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں منشی پریم چند نے نہایت بے باکی سے دہقانوں پر ہونے والے مظالم کی عکاسی کی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار’ ہوری‘ پریم چند کا ایسا لافانی کردار ہے جو پورے ہندوستان کے کسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ناول کے دیگر کردار بھی واضح طور پر مختلف طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کا اختتام دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ اردو اور ہندی کے بیشتر ناقدین نے گئودان کو اردو اور ہندی کا بہترین ناول قرار دیا ہے۔
1/10

کتاب کا نام: گئو دان۔مصنف: منشی پریم چند۔ سن اشاعت: ۱۹۳۶ء:’گئودان ‘ کو منشی پریم چند کا شاہکار ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ پریم چند کا آخری طبع شدہ ناول ہے جس کی اشاعت۱۹۳۶ء میں ہوئی تھی ۔ گئو دان پہلے دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تھا پھر اقبال بہادر ورما ساحر نے اسے اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ یہ ناول ملک (ہندوستان) کے پسے ہوئے اور مظلوم کسانوں کی دکھ بھری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں منشی پریم چند نے نہایت بے باکی سے دہقانوں پر ہونے والے مظالم کی عکاسی کی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار’ ہوری‘ پریم چند کا ایسا لافانی کردار ہے جو پورے ہندوستان کے کسانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ناول کے دیگر کردار بھی واضح طور پر مختلف طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کا اختتام دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ اردو اور ہندی کے بیشتر ناقدین نے گئودان کو اردو اور ہندی کا بہترین ناول قرار دیا ہے۔

X کتاب کا نام: رستم و سہراب۔مصنف:آغا حشر کاشمیری۔ سن اشاعت: ۱۹۶۲ء:’رستم و سہراب ‘آغا حشر کاشمیری ؔ کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا المیہ ڈراما ہے جو ایر ان کے مشہور شاعر فردوسیؔ کے ’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے ۔انہوں نے یہ ڈراما ۱۹۳۰ء میں میڈن تھیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیرٹیکل کمپنی کیلئے لکھا تھا جو کتابی شکل میں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔یہ ڈراما ۳؍ ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں ۴؍ سین، دوسرے میں ۸؍ اور تیسرے میں۶؍ یعنی کل۱۸؍ سین( مناظر) ہیں۔ یہ ڈراما آغا حشر کے سحر طراز ذہن کا ایک شاہکار ہے ، اس ڈرامے سے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب ملا ۔ڈراما ایک باپ کی اپنے اکلوتےبیٹے کے فراق میں تڑپنے اورانتظار کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں انہوں نے الفاظ کا ایک بحر بیکراں سمو دیا ہے ۔ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام ، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔
2/10

کتاب کا نام: رستم و سہراب۔مصنف:آغا حشر کاشمیری۔ سن اشاعت: ۱۹۶۲ء:’رستم و سہراب ‘آغا حشر کاشمیری ؔ کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا المیہ ڈراما ہے جو ایر ان کے مشہور شاعر فردوسیؔ کے ’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے ۔انہوں نے یہ ڈراما ۱۹۳۰ء میں میڈن تھیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیرٹیکل کمپنی کیلئے لکھا تھا جو کتابی شکل میں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا۔یہ ڈراما ۳؍ ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں ۴؍ سین، دوسرے میں ۸؍ اور تیسرے میں۶؍ یعنی کل۱۸؍ سین( مناظر) ہیں۔ یہ ڈراما آغا حشر کے سحر طراز ذہن کا ایک شاہکار ہے ، اس ڈرامے سے اردو ادب کو ایک نیا اسلوب ملا ۔ڈراما ایک باپ کی اپنے اکلوتےبیٹے کے فراق میں تڑپنے اورانتظار کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں انہوں نے الفاظ کا ایک بحر بیکراں سمو دیا ہے ۔ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام ، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔

X کتاب کا نام: جاپان چلو جاپان چلو۔ مصنف:مجتبیٰ حسین۔ سن اشاعت: ۱۹۸۳ء:’جاپان چلو، جاپان چلو‘ مجتبیٰ حسین کا وہ یادگار سفرنامہ ہے جو مزاحیہ سفرناموں کی تاریخ کا ایک روشن حصہ ہے۔ اس سفر نامے میں مجتبیٰ حسین نے جاپان کی قومی و ملکی اہم خصوصیات کا اپنے مخصوص اسلوب میں تذکرہ کیا ہے۔ جاپانیوں کی کم آمیزی، محنت و مشقّت، کردار پرستی، مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور خصوصیات کو دل کھول کر سراہا ہے۔اس سفر کے دوران مجتبیٰ حسین نے اس بات میں زیادہ دلچسپی لی ہے کہ جاپان میں اردو اور اسلام کس حد تک موجود ہے؟ اردو کے متعلّق ان کا یہ انکشاف بے حد دلچسپ ہے کہ وہاں اردو اتنی موجود ہے کہ وہاں اردو نے خود ہمیں تلاش کر لیا۔مجتبیٰ حسین نے کئی کتابیںتصنیف کیں مگر اس کتاب یا سفرنامے کی حیثیت سنگ میل کی سی ہے۔ اس سفرنامے میں بہت سے خاکے بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں جو ہمارے ذہن پر دیر پا اثر قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
3/10

کتاب کا نام: جاپان چلو جاپان چلو۔ مصنف:مجتبیٰ حسین۔ سن اشاعت: ۱۹۸۳ء:’جاپان چلو، جاپان چلو‘ مجتبیٰ حسین کا وہ یادگار سفرنامہ ہے جو مزاحیہ سفرناموں کی تاریخ کا ایک روشن حصہ ہے۔ اس سفر نامے میں مجتبیٰ حسین نے جاپان کی قومی و ملکی اہم خصوصیات کا اپنے مخصوص اسلوب میں تذکرہ کیا ہے۔ جاپانیوں کی کم آمیزی، محنت و مشقّت، کردار پرستی، مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور خصوصیات کو دل کھول کر سراہا ہے۔اس سفر کے دوران مجتبیٰ حسین نے اس بات میں زیادہ دلچسپی لی ہے کہ جاپان میں اردو اور اسلام کس حد تک موجود ہے؟ اردو کے متعلّق ان کا یہ انکشاف بے حد دلچسپ ہے کہ وہاں اردو اتنی موجود ہے کہ وہاں اردو نے خود ہمیں تلاش کر لیا۔مجتبیٰ حسین نے کئی کتابیںتصنیف کیں مگر اس کتاب یا سفرنامے کی حیثیت سنگ میل کی سی ہے۔ اس سفرنامے میں بہت سے خاکے بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں جو ہمارے ذہن پر دیر پا اثر قائم رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

X کتاب کا نام: خوشبو۔مصنف:پروین شاکر۔ سن اشاعت: ۱۹۷۷ء:’خوشبو‘ پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۷۷ءمیں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ میں پروین شاکر کے۱۶؍ سے ۲۴؍ سالہ زندگی کا ارمان اور تجربہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس مجموعہ کے آتے ہی پروین شاکر کی شاعری کی خوشبو چہار سو پھیل گئی تھی۔اس مجموعے میں ایک لڑکی کی نفسیاتی کیفیات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیاہے ۔اس مجموعےمیں دل میں اترتی، خوشبو کی طرح کوبہ کوپھیلتی اوراپنی پھولوں جیسی نزاکت سے دل کو تھپکتی شاعری ہے۔پروین شاکرکی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات واحساسات کا اظہار ہے ، جودردکائنات بن جاتا ہے،اس لئےانہیں دورجدیدکی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ پروین شاکر کے شعری مجموعے ’خوشبو‘ میں غزلیں اور نظمیں دونوںموجود ہیں۔اس کے علاوہ ان کی شاعری میں سماجی، ثقافتی، سیاسی اور خاندانی مسائل کا درد و کرب بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
4/10

کتاب کا نام: خوشبو۔مصنف:پروین شاکر۔ سن اشاعت: ۱۹۷۷ء:’خوشبو‘ پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۷۷ءمیں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ میں پروین شاکر کے۱۶؍ سے ۲۴؍ سالہ زندگی کا ارمان اور تجربہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس مجموعہ کے آتے ہی پروین شاکر کی شاعری کی خوشبو چہار سو پھیل گئی تھی۔اس مجموعے میں ایک لڑکی کی نفسیاتی کیفیات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیاہے ۔اس مجموعےمیں دل میں اترتی، خوشبو کی طرح کوبہ کوپھیلتی اوراپنی پھولوں جیسی نزاکت سے دل کو تھپکتی شاعری ہے۔پروین شاکرکی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات واحساسات کا اظہار ہے ، جودردکائنات بن جاتا ہے،اس لئےانہیں دورجدیدکی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ پروین شاکر کے شعری مجموعے ’خوشبو‘ میں غزلیں اور نظمیں دونوںموجود ہیں۔اس کے علاوہ ان کی شاعری میں سماجی، ثقافتی، سیاسی اور خاندانی مسائل کا درد و کرب بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

X کتاب کا نام: نکات الشعراء۔ مصنف:میر تقی میر۔ سن اشاعت:۱۷۵۱ء:’تذکرہ نکات الشعرا ‘ خدائے سخن میر تقی میر کی فارسی میں نثری تصنیف ہے جس میں انہوں نے شمالی ہند کے شعرا کا تذکرہ کیا ہے۔اسے اردو کا اولین تذکرہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔میر نے اپنے اس تذکرہ میں ۱۰۴؍شعرا کے مختصر حالات اور منتخبہ کلام کوشامل کیا ہے۔ جن میں ۳۲؍ شعرا دکن اور باقی شمالی ہند کے ہیں۔یہ تذکرہ معلومات کا خزانہ ہے۔اس میں میر اپنے ایک منفرد اندازمیں نظرآتے ہیں۔یہ کتاب متنازع بھی رہی کہ میر نے اس میں دو ٹوک باتیں بھی کہی ہیں، اپنے زمانے کے شعرا اور ان کے کلام پر تنقید بھی کی ہے اور ان کے اشعار میں ترمیم اور اصلاح بھی۔یہ کتاب ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کی تاریخ بھی ہے۔ اس تذکرہ نے ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ سے مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہوگئے ۔
5/10

کتاب کا نام: نکات الشعراء۔ مصنف:میر تقی میر۔ سن اشاعت:۱۷۵۱ء:’تذکرہ نکات الشعرا ‘ خدائے سخن میر تقی میر کی فارسی میں نثری تصنیف ہے جس میں انہوں نے شمالی ہند کے شعرا کا تذکرہ کیا ہے۔اسے اردو کا اولین تذکرہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔میر نے اپنے اس تذکرہ میں ۱۰۴؍شعرا کے مختصر حالات اور منتخبہ کلام کوشامل کیا ہے۔ جن میں ۳۲؍ شعرا دکن اور باقی شمالی ہند کے ہیں۔یہ تذکرہ معلومات کا خزانہ ہے۔اس میں میر اپنے ایک منفرد اندازمیں نظرآتے ہیں۔یہ کتاب متنازع بھی رہی کہ میر نے اس میں دو ٹوک باتیں بھی کہی ہیں، اپنے زمانے کے شعرا اور ان کے کلام پر تنقید بھی کی ہے اور ان کے اشعار میں ترمیم اور اصلاح بھی۔یہ کتاب ڈھائی سو برس قبل کے اردو شعرا کی تاریخ بھی ہے۔ اس تذکرہ نے ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ سے مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہوگئے ۔

X کتاب کا نام: وہ جو شاعری کا سبب ہوا۔ مصنف:کلیم عاجز۔ سن اشاعت:۱۹۷۶ء: یہ کلیم عاجز کا مشہور زمانہ شعری مجموعہ ہے۔ مجموعے میں شامل ان کی غزلوں میں ان کےعہدکےسماجی اورسیاسی تصورات کوبڑی سلیقہ مندی سےپیش کیا گیا ہے۔ کلیم عاجز کو دورجدیدکےان شعرا میں سے سمجھا جاتا ہے جنہیں میر کا انداز نصیب ہوا ہے۔ان کی شاعری میں درد بھرا لہجہ اور ان پر ہوئے مظالم کا رد عمل ملتا ہے۔ اردو شاعری نے اپنا اسلوب بدلا اور جدیدیت کے نئے امکانات سامنے آئے لیکن کلیم عاجز کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف انداز بیان میں جدت پیدا کی بلکہ ترکیب خیال میں بھی ندرت آفرینی کے کرشمے دکھائے۔ مجموعے میں شامل ان کی غزلیں اور اشعار میں مقصدیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی غزلوں میں بڑی سادگی ہے،الفاظ عام فہم ہوتے ہیں۔ مجموعہ’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘ کا تبصرہ کلیم الدین احمد نے،تجزیہ علامہ جمیل مظہری نے اور تعارف سید علی عباس نے لکھا ہے۔
6/10

کتاب کا نام: وہ جو شاعری کا سبب ہوا۔ مصنف:کلیم عاجز۔ سن اشاعت:۱۹۷۶ء: یہ کلیم عاجز کا مشہور زمانہ شعری مجموعہ ہے۔ مجموعے میں شامل ان کی غزلوں میں ان کےعہدکےسماجی اورسیاسی تصورات کوبڑی سلیقہ مندی سےپیش کیا گیا ہے۔ کلیم عاجز کو دورجدیدکےان شعرا میں سے سمجھا جاتا ہے جنہیں میر کا انداز نصیب ہوا ہے۔ان کی شاعری میں درد بھرا لہجہ اور ان پر ہوئے مظالم کا رد عمل ملتا ہے۔ اردو شاعری نے اپنا اسلوب بدلا اور جدیدیت کے نئے امکانات سامنے آئے لیکن کلیم عاجز کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف انداز بیان میں جدت پیدا کی بلکہ ترکیب خیال میں بھی ندرت آفرینی کے کرشمے دکھائے۔ مجموعے میں شامل ان کی غزلیں اور اشعار میں مقصدیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی غزلوں میں بڑی سادگی ہے،الفاظ عام فہم ہوتے ہیں۔ مجموعہ’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘ کا تبصرہ کلیم الدین احمد نے،تجزیہ علامہ جمیل مظہری نے اور تعارف سید علی عباس نے لکھا ہے۔

X کتاب کا نام: آشفتہ بیانی میری۔مصنف: رشید احمد صدیقی۔ سن اشاعت: ۱۹۵۸ء:’آشفتہ بیانی میری‘ رشید احمد صدیقی كی مشہور خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی كے مختلف شعبوں بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی كی ترجمانی كی ہے۔ اس کتاب میںانہوں نے صرف اپنی آپ بیتی ہی بیان نہیں كی بلكہ علی گڑھ كی تہذیبی روایت كی عكاسی بھی بڑی خوبصورتی سے كی ہے۔ اس خود نوشت سے ان کی زندگی کے کئی پہلو ہمارے سامنے واضح ہوجاتے ہیں۔ انوكھا انداز بیاں ،زبان كی شگفتگی،دلچسپ واقعات، شعر و ادب سے متعلق مختلف نظریات،مختلف اشخاص كا تذكرہ،تعلیم وتدریس كی اہمیت اور اخلاق و كردار كے مثبت پہلووغیرہ ا س كتاب كی دیگر اہم خصوصیات ہیں جنہوں نے اسے مقبول عام كیا۔رشید احمد صدیقی كو علی گڑھ سے بے انتہا محبت تھی اور ان كی زندگی علی گڑھ كی تہذیب وروایات كی عكاس ہے۔ ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ رشید احمد صدیقی اور علی گڑھ کا خوبصورت امتزاج ہے۔
7/10

کتاب کا نام: آشفتہ بیانی میری۔مصنف: رشید احمد صدیقی۔ سن اشاعت: ۱۹۵۸ء:’آشفتہ بیانی میری‘ رشید احمد صدیقی كی مشہور خود نوشت ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی كے مختلف شعبوں بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی كی ترجمانی كی ہے۔ اس کتاب میںانہوں نے صرف اپنی آپ بیتی ہی بیان نہیں كی بلكہ علی گڑھ كی تہذیبی روایت كی عكاسی بھی بڑی خوبصورتی سے كی ہے۔ اس خود نوشت سے ان کی زندگی کے کئی پہلو ہمارے سامنے واضح ہوجاتے ہیں۔ انوكھا انداز بیاں ،زبان كی شگفتگی،دلچسپ واقعات، شعر و ادب سے متعلق مختلف نظریات،مختلف اشخاص كا تذكرہ،تعلیم وتدریس كی اہمیت اور اخلاق و كردار كے مثبت پہلووغیرہ ا س كتاب كی دیگر اہم خصوصیات ہیں جنہوں نے اسے مقبول عام كیا۔رشید احمد صدیقی كو علی گڑھ سے بے انتہا محبت تھی اور ان كی زندگی علی گڑھ كی تہذیب وروایات كی عكاس ہے۔ ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ رشید احمد صدیقی اور علی گڑھ کا خوبصورت امتزاج ہے۔

X کتاب کا نام: پردۂ غفلت۔ مصنف: ڈاکٹر سید عابد حسین۔ سن اشاعت: ۱۹۲۵ء: ڈراما’ پردۂ غفلت‘ کو اردو ڈرامے میں انار کلی کے بعد دوسرا اہم ڈراما گردانا جاتا ہے۔ جب سید عابد حسین تحصیل علم کے خاطر جرمنی گئے تھے اس دوران انہوں نے معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو بڑے غور سے دیکھا تھا اور انہیں چیزوں سے کسب فیض کرکے اپنی تخلیق کے ذریعہ اسے ڈرامے کی شکل میں پیش کیا۔یہ ڈراما چار ایکٹ اور گیارہ مناظر (سین)پر مشتمل ہے۔ ڈراما پردہ غفلت کا موضوع ایک طرف جاگیردارانہ نظام اور روایتی اقدار ہے تو دوسری طرف جدید طرز اور روشن خیالات کا ٹکراؤ ہے۔اس میں معاشرتی اصلاح اور جاگیردارانہ نظام کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے۔بنیادی طور پر اس ڈرامے میں نئی اور پرانی قدروں کے تصادم کو پیش کیا گیا ہے۔ڈرامے کے مرکزی کردار الطاف حسین اور ان کی بیوی رقیہ خاتون ہیں  اس کے علاوہ کئی اور ضمنی کردار بھی ہیں جو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
8/10

کتاب کا نام: پردۂ غفلت۔ مصنف: ڈاکٹر سید عابد حسین۔ سن اشاعت: ۱۹۲۵ء: ڈراما’ پردۂ غفلت‘ کو اردو ڈرامے میں انار کلی کے بعد دوسرا اہم ڈراما گردانا جاتا ہے۔ جب سید عابد حسین تحصیل علم کے خاطر جرمنی گئے تھے اس دوران انہوں نے معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کو بڑے غور سے دیکھا تھا اور انہیں چیزوں سے کسب فیض کرکے اپنی تخلیق کے ذریعہ اسے ڈرامے کی شکل میں پیش کیا۔یہ ڈراما چار ایکٹ اور گیارہ مناظر (سین)پر مشتمل ہے۔ ڈراما پردہ غفلت کا موضوع ایک طرف جاگیردارانہ نظام اور روایتی اقدار ہے تو دوسری طرف جدید طرز اور روشن خیالات کا ٹکراؤ ہے۔اس میں معاشرتی اصلاح اور جاگیردارانہ نظام کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے۔بنیادی طور پر اس ڈرامے میں نئی اور پرانی قدروں کے تصادم کو پیش کیا گیا ہے۔ڈرامے کے مرکزی کردار الطاف حسین اور ان کی بیوی رقیہ خاتون ہیں  اس کے علاوہ کئی اور ضمنی کردار بھی ہیں جو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

X کتاب کا نام: جب کھیت جاگے۔ مصنف: کرشن چندر۔ سن اشاعت: ۱۹۵۲ء:کرشن چندر نے کثیر تعداد میںاردو ناول اور افسانے لکھے ہیں۔ ان کے یہاں متنوع موضوعات پائے جاتے ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں ’ جب کھیت جاگے‘ اہمیت کا حامل ہے۔ سردارجعفری نے اس ناول کو بہت سراہا ہے۔ کرشن چندر نے اس ناول میں روایت کے خلاف کسانوں کو بہادر اور ذہنی طور پر مضبوط بتایا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بائیس سال کا نو عمر کسان راگھور راؤ ہے جسے زندہ رہنے کے بنیادی حق میں پھانسی دی جاتی ہے۔ کہانی اس کی زندگی کی آخر ی رات سے شروع ہوتی ہے اور یادوں کا کارواں بن کر گزرتی ہے ۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک واقعہ سکوں کی طرح اٹھاکر الگ کر تا ہے اوررات بھر ان سکوں کو گنتا رہتا ہے اور صبح کو جب سورج طلوع ہورہا ہوتا ہے تب وہ پھانسی پر چڑھ رہا ہوتا ہے۔ اس کہانی میں انہو ں نے کسانوں کو بیدار کرنے کی بہت کامیاب کوشش کی ہے ۔
9/10

کتاب کا نام: جب کھیت جاگے۔ مصنف: کرشن چندر۔ سن اشاعت: ۱۹۵۲ء:کرشن چندر نے کثیر تعداد میںاردو ناول اور افسانے لکھے ہیں۔ ان کے یہاں متنوع موضوعات پائے جاتے ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں ’ جب کھیت جاگے‘ اہمیت کا حامل ہے۔ سردارجعفری نے اس ناول کو بہت سراہا ہے۔ کرشن چندر نے اس ناول میں روایت کے خلاف کسانوں کو بہادر اور ذہنی طور پر مضبوط بتایا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بائیس سال کا نو عمر کسان راگھور راؤ ہے جسے زندہ رہنے کے بنیادی حق میں پھانسی دی جاتی ہے۔ کہانی اس کی زندگی کی آخر ی رات سے شروع ہوتی ہے اور یادوں کا کارواں بن کر گزرتی ہے ۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک واقعہ سکوں کی طرح اٹھاکر الگ کر تا ہے اوررات بھر ان سکوں کو گنتا رہتا ہے اور صبح کو جب سورج طلوع ہورہا ہوتا ہے تب وہ پھانسی پر چڑھ رہا ہوتا ہے۔ اس کہانی میں انہو ں نے کسانوں کو بیدار کرنے کی بہت کامیاب کوشش کی ہے ۔

X کتاب کا نام: طلسم ہوش ربا۔ مصنف: منشی محمد حسین جاہ۔ سن اشاعت:۱۸۸۰ء:’طلسم ہوشربا‘اردو كے داستانوی ادب كی ایك مشہور تصنیف ہے جو دراصل’ داستان امیر حمزہ‘ كا ایك حصہ ہے۔ طلسم ہوش ربا کی کل ۹؍ جلدیں ہیں جو تقریباً ۱۰؍ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ۱۸۸۰ء میں منشی محمد حسین جاہ نامی داستان گو نے اس کی تالیف کی اور انہوں نے ۱۸۹۱ء تک اس کی چار جلدیں لکھیں۔ بعد میں ایک اور داستان گو احمد حسین قمر نے ۱۸۹۷ء میں مزید دو جلدوں کا ’بقیۂ طلسم ہوش ربا‘‘ کے نام سے اضافہ کیا۔ یہ داستان مافوق الفطرت عناصر،ساحرانہ كمالات، دیوزاد، پریوں كے كرداروں پر مشتمل ہےجس میں قصہ در قصہ کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔یہ داستاں محض داستاں نہیں ہے بلكہ بیسوی صدی كے اوائل تك ہند ایرانی تہذیب کے جو آخری نشانات باقی تھے ،اس كی عكاس بھی ہے۔ اُس تہذیب كاتقریباً ہر پہلو اس میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ کتاب اب بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔
10/10

کتاب کا نام: طلسم ہوش ربا۔ مصنف: منشی محمد حسین جاہ۔ سن اشاعت:۱۸۸۰ء:’طلسم ہوشربا‘اردو كے داستانوی ادب كی ایك مشہور تصنیف ہے جو دراصل’ داستان امیر حمزہ‘ كا ایك حصہ ہے۔ طلسم ہوش ربا کی کل ۹؍ جلدیں ہیں جو تقریباً ۱۰؍ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ۱۸۸۰ء میں منشی محمد حسین جاہ نامی داستان گو نے اس کی تالیف کی اور انہوں نے ۱۸۹۱ء تک اس کی چار جلدیں لکھیں۔ بعد میں ایک اور داستان گو احمد حسین قمر نے ۱۸۹۷ء میں مزید دو جلدوں کا ’بقیۂ طلسم ہوش ربا‘‘ کے نام سے اضافہ کیا۔ یہ داستان مافوق الفطرت عناصر،ساحرانہ كمالات، دیوزاد، پریوں كے كرداروں پر مشتمل ہےجس میں قصہ در قصہ کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔یہ داستاں محض داستاں نہیں ہے بلكہ بیسوی صدی كے اوائل تك ہند ایرانی تہذیب کے جو آخری نشانات باقی تھے ،اس كی عكاس بھی ہے۔ اُس تہذیب كاتقریباً ہر پہلو اس میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ کتاب اب بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK