مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایڈوکیٹ شاہداعظمی کے بہیمانہ قتل اور وقف ترمیمی بل کیخلاف انوسینٹ نیٹ ورک کے زیر اہتمام لیکچر سیریز کا اہتمام۔ انصاف نہ ملنے پر اظہار افسوس۔
EPAPER
Updated: February 11, 2025, 10:30 AM IST | Mumbai
مراٹھی پتر کار سنگھ میں ایڈوکیٹ شاہداعظمی کے بہیمانہ قتل اور وقف ترمیمی بل کیخلاف انوسینٹ نیٹ ورک کے زیر اہتمام لیکچر سیریز کا اہتمام۔ انصاف نہ ملنے پر اظہار افسوس۔
ایک بار پھر ایڈوکیٹ شاہداعظمی کے بہیمانہ قتل اور وقف بورڈ ترمیمی بل کے خلاف انوسینٹ نیٹ ورک کے زیر اہتمام لیکچر سیریز کا اہتمام کیا گیا۔ مراٹھی پتر کار سنگھ میں ہونے والے اس پروگرام کے دوران جہاں ایک طرف ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کے بہیمانہ قتل اور ۱۲؍ سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا، وہیں دوسری جانب موجودہ حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل کو جبراً نافذ کرنے کی کوشش کو ایک منظم سازش قرار دیتے ہوئے حکومت کے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا گیا اور کہا گیاکہ ہندوستانی مسلمان اس کیخلاف سڑک پر اتر کر احتجاج کر ے گا۔
پروگرام کے دوران شاہد اعظمی کے کیس پر روشنی ڈالتے ہوئے وکیل نوشاد احمد نے بتایا کہ مذکورہ بالا معاملے کی شنوائی آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہے اور اب تک ۳۸؍ گواہوں کے بیانات قلم بند ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے۱۲؍ سال بعد ہی سہی امسال کورٹ کے ذریعہ فیصلہ سنائے جانے کی امید ظاہر کی۔ اس موقع پر شاہد اعظمی کے بھائی عارف اعظمی، شاہد کے دوسرے مظلومین کے لئے اٹھ کھڑے ہونے اور ہر مظلوم کو انصاف دلانے کی جستجو میں اپنی جان گنوانے اور اہل خانہ کے ساتھ ان کے گزرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ ایڈوکیٹ سوزین نے پولیس کے ظلم اور جھوٹے کیسوں کا شکار ہونے والے محروسین کے لئے بیباکی سے کیس لڑنے کا اعتراف کرتے ہوئے شاہد اعظمی کو آج کی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ بتایا۔
مراٹھی پتر کار سنگھ میں منعقدہ پیر کا لیکچر ’وقف ترمیمی بل مسلمانوں کیلئے نقصاندہ یا خطرناک کیوں ہے؟‘ کے عنوان پر تھا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں سے بری ہونے والے عبدالواحد شیخ نے کہا کہ ’’ وقف ترمیمی بل کو حکومت جبراً نافذ کرنے پر آمادہ ہے۔ ہر چند کہ ۶؍ کروڑ سے زائد مسلمانوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ای میل بھیجا ہے لیکن حکومت ’لینڈ جہاد‘ کے نام پر بذات خود وقف کی پراپرٹی پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ اس وقت ملک میں ۳۵؍ وقف بورڈ وقف پراپرٹی کی نگرانی پر مامور ہیں۔ سب سے زیادہ آمدنی کرناٹک وقف بورڈ سے ہوتی ہے جبکہ سب سے کم آمدنی مہاراشٹر وقف پراپرٹی سے ہوتی ہے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ قانون وقف میں ہونے والی بد عنوانی کو ختم کرنے کیلئے لانا چاہئے تھا لیکن حکومت مسلمانوں کی جائیداد وں کو قانونی شکل دے کر ہڑپنے کا منصوبہ بناچکی ہے۔ اگر حکومت جبراً اسے نافذ کرتی ہے تو ہندوستان کا مسلمان سڑک پر اتر کر احتجاج کرے گا۔ ‘‘