مہلوکین کے لواحقین نے سوال کیا کہ ’’اگر ہمارے بچے پولیس فائرنگ میں نہیں مرے تو پھر کس کی گولی سے مرے؟‘‘ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فساد کے اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔‘‘
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 1:47 PM IST | Ismail Shad | Dhule
مہلوکین کے لواحقین نے سوال کیا کہ ’’اگر ہمارے بچے پولیس فائرنگ میں نہیں مرے تو پھر کس کی گولی سے مرے؟‘‘ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فساد کے اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔‘‘
مچھلی بازار میں ۶؍ جنوری ۲۰۱۳ءکو رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کی آج(پیر کو) بارہویں برسی ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی چاندیوال کمیشن کی رپورٹ منظر پر نہیں آئی ہے۔ اس معاملے میں فساد میں جاں بحق مہلوکین کے لواحقین اور فساد متاثرین نے سابقہ اور حالیہ حکومت کے تساہل پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اورحکومت سے چاندیوال کمیشن کی جانچ رپورٹ جلد از جلد منظر عام پر لانے اور فساد کے اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پرزور مطالبہ کیاہے۔
اس ضمن میں رئیس دولت پٹیل جن کا نابالغ بیٹا سعود پٹیل پولیس فائرنگ میں جاں بحق ہوا تھا، نے انقلاب کیلئے جانے والی خصوصی بات چیت میں کہا کہ’’ ہمیں جمعیۃ علماء مولانا ارشد مدنی کی جانب سے کی جانے والی تگ و دو اور قانونی چارہ جوئی پر ۶؍ سال بعد معاوضہ تو مل گیا لیکن فساد کے خاطیوں کو اب تک سزا نہیں ملی ہے۔ اس وقت کی حکومت نے پہلے مالتے کمیشن کو فساد کی جانچ کی ذمہ داری سونپی لیکن سابق جج مالتے نے فساد کی جانچ کی کارروائی اچانک چھوڑ دی۔ لواحقین، متاثرین، جمعیۃ علماء ارشد مدنی، سماجی، سیاسی تنظیموں کے احتجاج کے بعد فساد کی جانچ کی ذمہ داری سابق جج چاندی وال کو سونپی گئی۔ ‘‘ رئیس پٹیل نے مزید کہا کہ ’’جسٹس چاندیوال کمیشن کے ذریعہ فساد کی جانچ رپورٹ حکومت کو سونپنے کو ۱۲؍ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ سرد خانے میں ڈال دی گئی ہے۔ رئیس پٹیل کے ہمراہ پولیس فائرنگ میں جاں بحق ۶؍ مسلم نوجوانوں کے لواحقین اور فائرنگ سے معذور ہونیوالے دو نوجوانوں کے اہل خانہ، فساد متاثرین نے ایک آواز ہوکرکہا کہ سیکولر پارٹیاں برسر اقتدار ہونے کے باوجود جانچ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت سے متاثرین نے فساد کی جانچ رپورٹ جلد از جلد منظر عام پر لانے اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی مانگ کی ہے۔ ‘‘
پولیس فائرنگ میں جاں بحق نوجوان یونس شاہ کے والد عباس شاہ نے جانبدارانہ کارروائی کی شکایت کرتے ہوئے کہاکہ’’ فساد میں مسلم سماج کے ۶؍ نوجوان پولیس فائرنگ میں جاں بحق ہوئے، بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں کو چن چن کر آگ لگا دی، دکانوں کی لوٹ مار کی گئی مگر افسوس فساد برپا کرنے والوں کے خلاف ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیا گیا اورکمیشن میں زیادہ تر جھوٹ مقدمے درج کئے گئے۔ فساد میں اپنے بیٹوں کو کھونے والے متاثرین کے مطابق نہ ہی پولیس اور نہ ہی کمیشن میں پولیس فائرنگ میں مسلم نوجوانوں کی موت کا معاملہ درج کیا گیا ہے، جب ہمارے بچے پولیس فائرنگ میں نہیں مرے تو پھرکس کی گولی سے مرے ہیں ؟ ‘‘
۶؍جنوری ۲۰۱۳ء کو کیا ہوا تھا؟
معلوم ہوکہ ۶؍جنوری ۲۰۱۳ء کو مچھلی بازار سے متصل ایک ہوٹل میں معمولی بل پر دو افراد کا آپسی جھگڑا فساد کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ فساد کو قابو میں کرنے کے نام پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ جس میں ۶؍ مسلم نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق ہوئے تھے۔ جن میں سعود رئیس، عمران علی، عاصم شیخ، یونس شاہ، رضوان شاہ، حافظ آصف اقبال جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ پیر میں گولی لگنے سے شیخ چانداور خالد انصاری نامی دونوجوان ہمیشہ کیلئے پیروں سے معذور ہوگئے۔ اس فساد میں مسلمانوں کا کروڑوں روپوں کا مالی نقصان ہوا تھا۔ خیال رہے کہ اس فساد کی قانونی لڑائی جمعیۃ علماء مولانا ارشد مدنی کے قانونی کمیٹی کے صوبائی صدر گلزار اعظمیمرحوم اور دھولیہ قانونی کمیٹی کے محمود ربانی مرحوم کی نگرانی میں لڑی گئی۔
’’ہماری آواز حکومت تک پہنچانے کیلئے ہم انقلاب کے ممنون ‘‘
اس فساد میں جاں بحق ہونیوالوں کے لواحقین اور متاثرین میں شامل رئیس پٹیل، قمر علی، عباس شاہ، حسن شاہ، وسیم شیخ اور عبد العلیم نے نمائندہ سے بات چیت کے آخر میں بیک زبان کہا کہ ’’ دھولیہ فساد کی برسی پر ہر سال ۶؍جنوری کو انقلاب میں خصوصی رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ ہماری آواز کو حکومت تک پہنچانے کا کام روزنامہ ’انقلاب ‘بخوبی کررہا ہے اور ہمارے درد کا درماں بن کر ہمیں انصاف دلانے کی کوشش کررہا ہے، جس کیلئے ہم اسکے ممنون ہیں۔ ‘‘