Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

۱۵؍ سالہ لڑکے کی ناکردہ خطا، باپ اور چچا کی دکان منہدم

Updated: March 16, 2025, 10:57 AM IST | Sindhudurg

مالون میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے کے الزام میں جس لڑکےپر معاملہ درج کیا گیا تھا وہ نابالغ ہے، اس نے اللہ کی قسم کھاکر کہا ہے کہ ’’ میں نے ایسا کوئی نعرہ نہیں لگایا‘‘

Sanaullah`s question: Why was my shop demolished even though my nephew had raised a slogan? Photo: INN.
ثناء اللہ کا سوال: میرے بھتیجے نے نعرہ لگایا بھی تھا تو میری دکان کیوں گرائی گئی؟۔ تصویر: آئی این این۔

 ۲۳؍ فروری تک ثناء اللہ اور ان کے بیٹے ؍ بھتیجے کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ وہ سندھو درگ کے مالون علاقے میں گزشتہ ۲۱؍ سال سے سکونت پذیر ہیں۔ ایک بھنگار کی دکان چلا رہے تھے۔ ۲۳؍ فروری کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان میچ تھا جس میں روہت شرما کے آئوٹ ہوتے ہی ان کے ۱۵؍ سالہ بھتیجے سلمان (نام تبدیل) پر شرپسندوں کاقہر ٹوٹ پڑا اور اسکی وجہ سے ثناء اللہ کی چھت اور کاروبارسب چھن گیا۔ 
یاد رہے کہ ۲۳؍ فروری کو ہند۔ پاک میچ تھا۔ اسی دن یہ خبر آئی تھی کہ سندھو درگ کے مالون تعلقے میں واقع ایک گائوں میں ایک لڑکے نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور روہت شرما کے آئوٹ ہونے کی خوشی منائی۔ اس پر مقامی باشندوں نے اس لڑکے اور اسکے باپ کی پٹائی کی۔ پولیس نے ان پرمعاملہ درج کیا۔ دوسرے دن نلیش رانے نے ٹویٹ کرکے بتایا کہ ان لوگوں کی بھنگار کی دکان مقامی انتظامیہ نے منہدم کر دی ہے۔ اسکے علاوہ میڈیا میں کوئی تفصیل پیش نہیں کی گئی تھی۔ نہ یہ بتایا گیا تھا کہ ’’ پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے کا کیا ثبوت ہے؟ نہ یہ کہ اگر لڑکے نے یہ نعرہ لگایا یا تھا تو کس قانون کے تحت اس کے باپ کی دکان گرائی گئی؟ پھر اس کے چچا کا کاروبار بھی منہدم کر دیا گیا؟ 
اب دینک بھاسکر نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس لڑکے پر وطن سے غداری کا معاملہ درج کیا گیا ہے وہ محض ۱۵؍ سال کا ہے۔ رپورٹ میں اسکا نام تبدیل کرکے سلمان بتایا گیا ہے۔ سلمان ممبئی کے ایک مدرسے میں پڑھتا ہے۔ وہ چھٹیوں میں مالون آیا تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ۲۳؍ فروری کو رات ساڑھے ۸؍ بجے مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا اور اس نے ایک دکان سے کچھ خریداری کی۔ اسی وقت ۲؍ لڑکے بائیک پر آئے جنہیں سلمان نہیں جانتا تھا۔ انہوں نے سلمان سے نام پوچھا۔ سلمان نے ڈر کے مار ے اپنا اپنا نام الیاس بتایا۔ وہ دونوں نشے میں دھت لگ رہے تھے۔ لڑکوں نے سلمان کو دھمکایا کہ اپنا اصل نام بتائے۔ ساتھ ہی پوچھا ’ تو کرکٹ دیکھتا ہے؟‘‘ سلمان نے کہا کہ وہ کرکٹ نہیں دیکھتا کیونکہ اسے اس کا شوق نہیں ہے۔ لڑکوں نے کہا ’’ کرکٹ نہیں دیکھتا لیکن کس کی طرف ہے؟‘‘ سلمان نے جواب دیا کہ ’’میں ہندوستان میں رہتا ہوں تو ظاہر ہےکہ ہندوستان کی طرف ہوں۔ ‘‘ اس پر بائیک پر بیٹھے ایک لڑکے نے دوسرے کے کان میں کہا ’’ وہ ہندوستان مردہ باد کہہ رہا ہے۔ ‘‘ دونوں نیچے اترے اور انہوں نے سلمان کی پٹائی شروع کر دی۔ وہ اسے اسکے گھر لے گئے اور اسکے والد کے سامنے اسے پیٹا، اور وہی بات دہراتے رہے کہ سلمان نےپاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایاہے۔ ‘‘ والد نے کسی طرح اسے چھڑایا اور وہ چلے گئے۔ دیر رات جب سلمان اپنے والد کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا وہی لڑکے تقریباً ۵۰؍ لوگوں کو لے کر ان کے گھر آئے اور سلمان کے ساتھ اسکے والد کی بھی پٹائی کی۔ وہ زبردستی سلمان اور اسکے تمام گھر والوں کو گاڑی میں بٹھا کرپولیس اسٹیشن لے گئے جہاں ان کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ سلمان نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ’’ میں نے ایسا کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ ‘‘ مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ 
دوسرے دن انتظامیہ نے دونوں بھائیوں کی دکانیں منہدم کر دیں۔ ۲؍ دن بعد ان لوگوں کو ضمانت ملی مگرسلمان کے والد اور ان کے اہل خانہ گائوں لوٹ کر نہیں آئے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ مالون ہی میں کسی اور جگہ چھپ کر رہ رہے ہیں۔ سلمان ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ کسی اور جگہ چھپ کر رہ رہا ہے۔ ثناء اللہ گائوں لوٹے ہیں لیکن انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں کہ گائوں چھوڑ کر چلے جائیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میری بیٹی کا امتحان چل رہا ہے۔ اسلئے گائوں چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ اب اس گائوں میں رہنے کا دل نہیں ہوتا۔ ‘‘ گائوں میں مسلمانوں کے ۲۵؍ مکانات ہیں مگر نہ ہندوئوں اور نہ مسلمانوں نے ان کی مدد کی۔ ثناء اللہ بتاتے ہیں ’’ پہلے کچھ لوگ ہماری حمایت میں تھے لیکن بعد میں وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔ ‘‘
سب سے افسوسناک پہلو وہ ہے جو مسجد کمیٹی کے صدر کریم خان نے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’ ہمیں معلوم ہوا کہ میڈیا میں ہمیں دیش دروہی کہا جا رہا ہے۔ ہم اس معاملے کو ’ہندومسلم‘ کا رنگ نہیں دینا چاہتے تھے اسلئے ہم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ امن کمیٹی کی میٹنگ بلائی اور ان دو دکانوں کے علاوہ بھنگار کی کسی اور دکان کو نقصان نہ پہنچے اس کو یقینی بنایا۔ ‘‘ رپورٹ کے مطابق مالون پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر پروین کولہے کاکہنا ہے کہ ’’ ہمیں سندیپ وراڈکر نے شکایت کی تھی کہ ایک لڑکے نے ملک مخالف نعرہ لگایا ہے۔ اس پر ہم نے معاملہ درج کیا ہے۔ ‘‘ انسپکٹر سے پوچھا گیا کہ کیا اس تعلق سے کوئی ثبوت ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’ نہیں ، ہمارے پاس صرف چشم دید گواہ ہے۔ ہم اسی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK