۴؍ دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد عالیہ بیگم دم توڑ گئی،تلنگانہ کے اس واقعے سے خطے میں کشیدگی۔
EPAPER
Updated: February 19, 2025, 2:22 PM IST | Inquilab News Network | Hyderabad
۴؍ دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد عالیہ بیگم دم توڑ گئی،تلنگانہ کے اس واقعے سے خطے میں کشیدگی۔
سیاست میں در آئی نفرت کی وجہ سے ملک کے حالات روزبروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ایسا ہی ایک افسوس ناک معاملہ گزشتہ دنوں تلنگانہ میں پیش آیا جس نے ان تمام لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا جن کے ضمیرزندہ ہیں اور جو ملک میں امن و امان کے خواہاں ہیں۔’کلیریان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۱؍ فروری کو سنگا ریڈی ضلع میں ایک ۱۵؍ سالہ بچی عالیہ بیگم اُس وقت نفرت کی بھینٹ چڑھ گئی جب وہ اپنے والد کو تشدد پسند ہجوم سے بچانے کی کوشش کررہی تھی۔ چار دنوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۱۵؍ فروری کو اس نے دم توڑ دیا۔عالیہ بیگم کی المناک موت کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ظہیر آباد کے انتھارام گاؤں میں پیش آنے والے اس واقعے کی وجہ سے مقامی مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق جنونی ہجوم نےمحمد اسماعیل پر اُس وقت حملہ کر دیا جب وہ ’ویرا ریڈی‘ اور ’وجے ریڈی‘ نامی افراد کی رہائش گاہ کے قریب کھلے میدان میں استنجا کر رہے تھے۔ رپورٹس کے مطابق یہ دیکھ کر ریڈی برادران مشتعل ہو گئے اور تقریباً۴۰؍ افراد کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر اسماعیل پر حملہ کر دیا۔ تشدد کو بڑھتا دیکھ کر عالیہ سے نہیں رہا،اسلئے وہ اپنے والد کو بچانے کی کوشش کرنے لگی۔اس کے بعد وہ خود ہی جنونیوں کی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اسے بھاری پتھروں سے کچل دیا گیا۔
ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی کوثر محی الدین نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب والد پر حملہ ہوا تو عالیہ بیگم انہیں بچانے کیلئے دوڑیں۔ اس کے بعد جنونیوں کا رخ عالیہ کی جانب ہوگیا۔اس حملے میں انہیں شدت کی چوٹ آئی۔ زخمی حالت میں انہیں اسپتال داخل کیا گیا جہاں وہ ۱۵؍ فروری کوزندگی کی جنگ ہار گئیں۔‘‘کوثر محی الدین نے سوگوار خاندان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ یکجہتی کااظہار کیا۔ بعد میں انہوں نے ظہیر آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کی اور اس معاملے میں فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔اس وحشیانہ حملے نے پورے گاؤں کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔اس سانحہ کے بعد ریاست کے مسلم لیڈروں، شہریوں اور قانونی حقوق کے گروپوں نے ملزمین کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی مسلمان فرقہ وارانہ اندازمیں ہونےوالے اس حملےسے پریشان اور فکر مند ہیں۔ مجلس بچاؤ تحریک (ایم بی ٹی) کے ترجمان امجد اللہ خان خالد نے غمزدہ خاندان سے ملنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں وہاں جانے سے روک دیا۔اس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے حکام کی جانب سے صورتحال سے نمٹنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کی ہائی کورٹ کے موجودہ جج کے ذریعہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسی کے ساتھ ہمارا مطالبہ ہے کہ نہ صرف تمام ملزمین کو گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائےبلکہ بچی کے متعلقین کو۲۵؍ لاکھ روپے معاوضہ کے ساتھ ہی سرکاری نوکری اور’ اندراما ہاؤسنگ اسکیم‘ کے تحت ایک مکان بھی دیا جائے۔‘‘آل انڈیا ملی کونسل آف تلنگانہ نے متاثرہ خاندان کو قانونی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی قانونی ٹیم نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے ملاقات کرکے باضابطہ شکایت بھی درج کرائی ہے۔