• Fri, 14 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعلیم کو۱۰۰؍ فیصد ڈجیٹل کردینے کے ۱۵؍ سال بعد سویڈن میں کتابوں اور بیاضوں کی واپسی

Updated: February 13, 2025, 1:26 PM IST | Agency | Denmark

دیکھ کر پڑھنے کی صلاحیت میں کمی، ذہنی انتشار میں اضافہ اور اسکرین پر پڑھی ہوئی چیزوں کا ذہن نشین نہ ہونا نیز وقت پر یاد نہ آنا پالیسی بدلنے کا سبب بنا۔

Late is right: Importance of traditional books becomes clear. Photo: INN
دیر آید درست آید: روایتی کتابوں کی اہمیت واضح ہوگئی۔ تصویر: آئی این این

 ڈجیٹل تعلیم کا علمبردار بن کر ابھرنے والا ملک سویڈن  زائد از ایک دہائی بعد اب یوٹرن لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔  اسکولوں میں کتابوں اور بیاضوں کو الیکٹرانک آلات سے بدل دینے والا یہ ملک طلبہ میں  دوبارہ کتابیں متعارف کرانے کیلئے  ۱۰۴؍ ملین یورو ( تقریباً ساڑھے ۹؍ ارب روپوں) کے پروجیکٹ کو نافذ کر رہا ہے۔  یہ قدم ان اندیشوں کے بعد اٹھایا گیا ہے کہ ڈیجیٹل لرننگ کی وجہ سے طلبہ میں  دیکھ کر پڑھنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے، ذہنی انتشار میں اضافہ  ہوا ہے اور بنیادی صلاحیتوں میں گراوٹ آئی ہے۔ 
 ۲۰۰۹ء میں جب سویڈن نے روایتی نصابی کتابوں کو ہٹا کر ان کی جگہ ڈجیٹل آلات کو متعارف کرایاتھا تو اس وقت اس کے اس فیصلے کی  دور اندیشی پر مبنی انقلابی قدم کے طور پر پزیرائی کی گئی تھی۔ اس کا مقصد تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، پڑھنے لکھنے کے عمل کو مزید پرکشش بنانا اور طلبہ کوتیزی سے ڈجیٹل  ہوتی دنیا کیلئے  تیار کرنا تھا۔ شروع شروع میں اس تبدیلی کا پُرجوش خیر مقدم کیاگیا۔ ڈجیٹل آلات نے ملٹی میڈیا کےمشمولات  فراہم کئے،  تازہ ترین معلومات تک رسائی کی راہ ہموار کی اور  نصابی مشمولات کی آسان دستیابی کو ممکن بنادیا۔حکومت اس خیال کی حامل تھی کہ ’ٹچ  کے دور‘ میںپرورش پانےوالی نسل کواس زیاہ متحرک اور زیادہ انٹرایکٹیو تعلیمی ماحول   سے فائدہ پہنچے گامگر جوں جوں وقت گزر تا گیا فائدہ کے بجائے نقصانات نظر آنے لگے۔ بجائے اس کہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ڈجیٹل لرننگ  کے پریشان کن رجحانات سامنے آنے لگے۔ مثال کے طور پر طلبہ میں اقتباس پڑھنے کی صلاحیت گھٹنے لگی۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اسکرین پر پڑھنے کے مقابلے کاغذ پر پڑھنا یادداشت کیلئے بہتر  ہوتا ہے جو گیرائی و گہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اس کے برخلاف اسکرین  پر پڑھی گئی  معلومات  کے  ذہن نشین ہونے کی شرح بہت کم ہے اور  وہ بہ وقت ضرورت اس معلومات کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہورہے ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈجیٹل آلات پر پڑھائی کے دوران  اپنے سبق پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے طلبہ کیلئے  ٹیب بدل کر انٹرنیٹ پر سرفنگ میں مشغول ہوجانا زیادہ آسان ہے۔ یعنی ڈجیٹل لرننگ یکسوئی فراہم نہیں کرتی۔ ماہرین نےنشاندہی کی کہ اسکول  میں جب پڑھائی ہورہی ہوتی ہے اس وقت طلبہ کیلئے اپنے آلے پر کسی کھیل میں لگ جانا آسان ہوتا ہے یعنی جس چیز کو تعلیم کا آلہ سمجھ کر دیاگیاتھا وہ  بچے کے ذہن بھٹکانے کا سبب بن رہا تھا۔ 
 اساتذہ اور والدین نے یہ بھی محسوس کیا کہ ڈجیٹل آلات کے استعمال کی وجہ سے طلبہ کی پڑھنے اور لکھنے کی بنیادی صلاحیت متاثر  ہورہی ہے۔سویڈن حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس کی وجہ  بہت چھوٹی عمر میں الیکٹرانک اسکرین تک رسائی مل جانا  ہے۔ سویڈن میں تعلیمی ماہرین  نے بھی متوجہ کیا کہ  ڈجیٹل آلات کی وجہ سے طلبہ کا آپس میں رابطہ کم ہوگیا ہے، وہ آپس میں آمنے سامنےایک دوسرے سے کم باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں ضروری سماجی  تال میل کی صلاحیت پروان نہیں چڑھ پارہی ہے۔  ان تمام عوامل کی وجہ سے حکومت  اپنی ’’ڈجیٹل تعلیم ‘‘کی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور ہوگئی۔اس کیلئے جو تیاری کی گئی ہے اس کے تحت ۲۰۲۲ء سے ۲۰۲۵ء کے درمیان ۱۰۴؍ ملین یورو کے پروجیکٹ کو نافذ کیا جا رہاہے اوراس بات کو یقینی بنایا جارہاہے کہ ہر طالب علم تک ہر مضمون کی چھپی ہوئی کتاب پہنچے۔ نئے پروجیکٹ کا مقصد تکنالوجی کا صفایا کردینا نہیں ہے بلکہ ایک توازن قائم کرنا ہے۔ یعنی ڈجیٹل آلات تعلیم میں  معاون ہوں وہ تعلیم کا متبادل نہ بنیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK