• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنتوش دیشمکھ قتل معاملے میں۳؍ اورملزمین گرفتار

Updated: January 05, 2025, 4:01 PM IST | Agency | Beed

پہلے ہی مفرور قرار دیئے گئے ۲؍ ملزمین پونے سے گرفتار، مزید ایک کو کلیان سے حراست میں لیا گیا ، سریش دھس نے کہا’ یہ سب پیادے ہیں ان کے آقا کو گرفتار کیا جائے۔‘

The opposition has raised many questions on the action of the police. Photo: INN
بیڑ پولیس کی کارروائی پر اپوزیشن نے کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔ تصویر: آئی این این

بیڑ ضلع کے مساجوگ گائوں کے سرپنچ سنتوش دیشمکھ قتل معاملے میں پولیس نے سنیچر کے روز ۳؍ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔  اس طرح  اس معاملے میں اب تک۷؍ لوگوںکو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے ۶؍ لوگوں کو الگ الگ وقت میں پونے ہی سے گرفتار کیا گیاہے۔  ان کے سرغنہ والمیک کراڈ نے بھی پونے ہی میں خود کو سی آئی ڈی کے حوالے کیا تھا۔ حالانکہ کراڈ پر سنتوش دیشمکھ کے قتل کا معاملہ درج نہیں ہے بلکہ اسے ہفتہ وصولی معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈران سوال کر رہے ہیں کہ سنتوش دیشمکھ قتل کا ہر ملزم پونے ہی سے کیوں گرفتار ہو رہا ہے؟ 
 اس قتل میں ملوث  سدرشن چندر بھان گھُلے(۲۶) ، سدھیر سانگلے (۲۳)  اور سدھارتھ سوناونے کو  سنیچر کے روز گرفتار کیا گیا۔ ریاستی سی آئی ڈی کی خصوصی  ٹیم نے گھُلے اور سانگلے کو پونے سے گرفتار کیا، جبکہ سوناونے کو تھانے ضلع کے کلیان سے گرفتار کیا گیا۔ ان تینوں کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت کو بتایا  گیاکہ یہ تینوں ملزمین  منظم جرائم میں ملوث ہیں اور ممکنہ طور پر وہ ان کمپنیوں کو دھمکیاں دینے میں ملوث ہیں جو اس علاقے میں مختلف ترقیاتی کاموں میں مشغول  ہیں۔پولیس نے یہ بھی بتایا کہ سوناونے نے گھُلے اور دیگر کو دیشمکھ کے مقام کی تفصیلات فراہم کی تھیں، جس کی بنیاد پر یہ قتل کیا گیا تھا۔ عدالت نے ان تینوں کو ۱۴؍ دنوں کیلئے پولیس تحویل میں بھیج دیا ہے۔ یہ تینوں ۱۸؍ جنوری تک لاک اپ میں رہیں گے۔ دیشمکھ کے قتل سے متعلق ایک اور   جبری وصولی کے کیس میں بھی وشنو چٹے، سدرشن گھُلے اور والمک کراڈ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ریاستی  وزیر دھننجے منڈے کے قریبی ساتھی والمیک کراڈ نے ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو پونے میں سی آئی ڈی کے سامنے خودسپردگی کر دی تھی۔دیشمکھ کے قتل کے سلسلے میں اب تک گرفتار ہونے والے ملزمین میں سدرشن گھُلے، سدھیر سانگلے، پر تیک گھُلے، وشنو چٹے ، مہیش کیدار اور سدھارتھ سوناونے شامل ہیں، جبکہ کرشنا آندھالے ابھی تک فرار ہے۔   پولیس اسے تلاش کر رہی ہے۔  یاد  رہے سدھارتھ سونائونے کا نام اس سے قبل پولیس کی ایف آئی آر میں نہیں تھا اسے  گرفتار کئے گئے ملزمین سے پوچھ تاچھ میں ملی معلومات کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ 
 ہر ملزم پونے ہی سے کیوں گرفتار ہوا؟
 اس دوران این سی پی (شرد) کی رکن پارلیمان سپریہ سلے نے سوال کیا ہے کہ ’’ اس معاملے میں ملوث ہر ملزم پونے ہی سے گرفتار کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ وہ بارامتی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔  سپریہ سلے نے کہا ’’ دیر بھلے ہی ہوئی ہو لیکن اس معاملے میں ۲؍ کلیدی ملزمین گرفتار ہو گئے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس معاملے میں جتنی گرفتاریاں ہو رہی ہیں وہ پونے ہی سے کیوں ہو رہی ہیں ؟ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ پولیس کو اس معاملے میں باضابطہ طور پر معلومات جاری کرنی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ اب صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں رہ گیا ہے۔  اس تعلق سے دہلی میں بھی تبصرے ہو رہے ہیں اور دہلی کے  اخبارات میں بھی اس کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔‘‘ 
 دھننجے منڈے اخلاقاً استعفیٰ دیں
  دوسری طرف اس معاملے میں پہلے دن سے آواز اٹھانے والے بی جے پی رکن اسمبلی سریش دھس نے  ایک بار پھر وزیر دھننجے منڈے کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پکڑے گئے ملزمین صرف پیادے ہیں ان آقا کو پکڑا جائے۔  میں نے کہا تھا کہ بکرےکی اماں کب تک خیر منائے گی۔ آج دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ میں اب تک کی تفتیش سے مطمئن ہوں۔ این سی پی (شرد) کے نوجوان رکن اسمبلی سندیپ شیر ساگر نے نام لے کر دھننجے منڈے کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔  انہوں نے کہا ’’ ان ملزمین کی گرفتاری میں ۲۶؍ دنوں کا وقت کیوں لگ گیا؟ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں والمیک کراڈ اس معاملے میں ماسٹر مائنڈ ہے۔ اس پر بھی ۳۰۲؍ کے تحت معاملہ درج کیا جانا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ والمیک کراڈ کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ وہ اسپتال میں بھرتی ہے اور اپنی مرضی سے طے کرے گا کہ اسے جیل کب جانا ہے۔  ہمارا مطالبہ ہے جب تک اس معاملے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی تب تک دھننجے منڈے کو اخلاقاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدینا چاہئے۔‘‘ 
 یاد رہے کہ اس معاملےمیں جتنے لوگ ملزم بنائے گئے ہیں سب منڈے کے قریبی ہیں۔ اہم بات یہ ہے مہاوکاس اگھاڑی اور مہایوتی دونوں ہی اتحادوں کے لیڈران دھننجے منڈے پر کسی نہ کسی صورت میں تنقید کر رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK