Updated: August 01, 2024, 10:32 PM IST
| Gaza
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیل حماس جنگ کو ۳۰۰؍ دن مکمل ہوگئے ہیں۔ غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر برقرار ہے۔ ۴۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اور ملبے تلے دبے ہیں۔ عالمی برادری کی خاموشی اسرائیلی حوصلوں میں اضافہ کررہی ہے جبکہ غزہ میں انسانی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ یہاں خوراک، صاف پانی اور طبی خدمات کی شدید قلت ہے۔
فلسطینی محفوظ مقامات کی تلاش میں۔ تصویر: یو این
غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آج ۳۰۰؍ دن مکمل ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں ۴۰؍ ہزار فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ کے ساحلی علاقے کھنڈر بن چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ۹۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں جبکہ ہزاروں ملبے تلے دبے ہیں۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی جارحیت کے سبب روزانہ اوسطاً ۱۳۳؍ فلسطینی جاں بحق ہورہے ہیں مگر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عالمی برادری کیلئے یہ موضوع اہم نہیں رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کے عالمی مطالبات کے باوجود اسرائیل نے خونریز جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
فلسطینی ثقافت کا صفایا
غزہ کی نصف سے زیادہ عمارتیں، بشمول اسپتال اور مکانات، اور ثقافتی اور مذہبی اہمیت کے حامل سیکڑوں مقامات، اسرائیلی حملوں میں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ سیٹیلائٹ تصاویر بتاتی ہیں کہ غزہ کا انفراسٹرکچر ۵۰؍ فیصد اور رہائشی مکانات ۶۲؍ فیصد تباہ ہوچکے ہیں۔ اس جنگ نے ۱۰؍ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے گھر کردیا ہے جبکہ ۳ء۲؍ ملین باشندے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ غزہ میں خوراک، صاف پانی اور طبی خدمات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ٹی آر ٹی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری نے فلسطینی تاریخ میں مرکزی اہمیت کے حامل مقامات کو ختم کردیا ہے، مثلاً غزہ کی سب سے بڑی اور قدیم مسجد ’’عمری‘‘ اور جبالیہ کا پانچویں صدی کا بازنطینی چرچ جسے ۴۴۴ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف
غزہ کے انفرا اسٹرکچر کا خاتمہ وہی ہے جسے جنوبی افریقہ کی قانونی ٹیم نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اپنے مقدمے میں ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ اسرائیل نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔مقدمے کی پہلی سماعت جنوری میں ہوئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اسرائیل نے فلسطین کے سیکھنے اور ثقافت کے متعدد مراکز کو نقصان پہنچارہا ہے اور انہیں تباہ کررہا ہے، ان میں عجائب گھر، لائبریریاں، آرکائیوز، یونیورسٹیاں، اور مذہبی اور آثار قدیمہ کے مقامات شامل ہیں۔
اجتماعی قبروں کی نشاندہی
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے ناصر اور الشفاء اسپتالوں میں اجتماعی قبریں ملنے کے بعد اسرائیل کو سنگین جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے، جہاں فلسطینی متاثرین برہنہ حالت میں تھے اور ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مارچ میں غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کے ۱۴؍ روزہ اسرائیلی محاصرے کے بعد الشفا اسپتال میں دو اجتماعی قبروں سے کم از کم ۳۰؍ فلسطینیوں کی لاشیں برآمد کی گئی تھیں۔ یکم اپریل کو اسرائیل کے انخلاء کے بعد اسپتال بڑی حد تک کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا۔
چار ماہ کے زمینی حملے کے بعد ۷؍ اپریل کو اسرائیلی فوج کے شہر سے انخلاء کے بعد خان یونس کے ناصر اسپتال میں ایک اجتماعی قبر سے مزید ۲۸۳؍ لاشیں ملی تھیں۔اس ضمن میں اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ نے کہا کہ وہ یہ حالات دیکھ کر ’’خوفزدہ‘‘ ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل سے اس ’’ناقابل یقین حد تک پریشان کن‘‘ رپورٹس کے بارے میں معلومات بھی مانگی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی خاموشی نے اسرائیل کو اس حد تک حوصلہ دیا کہ اس نے صرف دو ہفتے قبل غزہ کے نصیرات پناہ گزین کیمپ پر سات دنوں کے اندر ۶۳؍ بار بمباری کی تھی۔ ان حملوں کے بارے میں غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے کہا کہ اسرائیل نے تھرمل اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
اسرائیل کی ہٹ دھرمی
مئی کے شروع میں، آئی سی جے نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے کیس میں مضبوط اور قانونی طور پر پابند عارضی اقدامات کا ایک نیا سیٹ پیش کیا۔عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ اپنی فوجی کارروائی کو فوری طور پر روک دے، نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے دیئے گئے کسی بھی ادارے تک بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنائے، اور مصر کے ساتھ رفح کراسنگ سمیت کھلی زمینی کراسنگ پوائنٹس کو برقرار رکھنے کیلئے فوری طور پر ضروری بنیادی خدمات کی بلا روک ٹوک فراہمی کرے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک ماہ کے اندر تمام اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور آئی سی جے کے فیصلوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔
جنگ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ
اسرائیل نے اپنے تازہ حملے اور حماس کے سیاسی بیورو کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کے قتل کے ساتھ جنگ بندی کی کوششوں کو ناکام بنا کر اشتعال انگیزی میں اضافہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد جنگ بندی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔