حافظ محمد بن عبداللہ ندوی دہلی ، بہار، لکھنؤ اور رتنا گیری کے بعد اب ممبرا میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ وہ کل ۶؍ بھائی ہیں جن میں سے ۵؍ حافظ ہیں۔
EPAPER
Updated: March 04, 2025, 11:53 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
حافظ محمد بن عبداللہ ندوی دہلی ، بہار، لکھنؤ اور رتنا گیری کے بعد اب ممبرا میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ وہ کل ۶؍ بھائی ہیں جن میں سے ۵؍ حافظ ہیں۔
ممبرا ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع نورانی مسجد کے امام حافظ محمد بن عبداللہ ندوی دہلی بہار، لکھنؤ اور رتنا گیری کے بعد اب ممبرا میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ان کی عمر صرف ۳۳؍ سال ہے مگر تراویح پڑھاتے ہوئے ۲۲؍ سال ہوچکے ہیں۔ حافظ محمد جید عالم دین مولانا عبد اللہ قاسمی ؒ کے فرزندہیں۔ وہ کُل ۶؍ بھائی ہیں جن میں سے ۵؍ حافظ ہیں جبکہ ایک بھائی ہائی اسکول میں بحیثیت معلم اپنی خدمات انجام دے رہےہیں۔ محمد عبداللہ ندوی نہ صرف حافظ ہیں بلکہ قرأت، حفص و سبعہ، عالمیت، اختصاص فی الفقہ والافتاء اور اختصاص فی البحث و التحقیق کا کورس بھی مکمل کیا ہے۔ اپنے تعارف کے تعلق سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’میرے والد عبداللہ قاسمی ایک علمی و دینی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے۔ میرا گاؤں جھگڑوا ہے جو بہار کے مردم خیز ضلع دربھنگہ میں پڑتا ہے۔ یہ ایک مسلم اکثریتی گاؤں ہے، جہاں سیکڑوں حفاظ اور عالم دین ہیں، ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے استاذ مفتی اشتیاق احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم اسی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔
دینی تعلیم کے تعلق سے دریافت کرنے پر حافظ محمد بن عبداللہ نے بتایا کہ’’ گھریلو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن مجید کیلئے میں چار اداروں سے وابستہ رہا۔ پہلے دار العلوم کریمیہ، اولا، ضلع تھانے سے قاری شمس عالم سے ۵؍ پارے پڑھے، پھر مدرسہ سراج العلوم (بھیونڈی) میں قاری ایوب سے ۲؍ پارے، اس کے بعد لاہور (پڑگھا، بوریولی) کے دارالعلوم اقراء سے ۸؍ پارے حفظ کئے اور یہاں قاری عبد السلام صاحب، قاری انظر کمال صاحب اور قاری عارف صاحب سے پڑھا، پھر دہلی میں مولانا شعیب انجم کے صاحبزادے مولانا رضوان انجم قاسمی کے ادارہ مدرسہ رحمانیہ تعلیم القرآن مصطفی آباد سے قاری محمود صاحب کے پاس قرآن مجید مکمل کیا۔ یہ ۲۰۰۰ء تا ۲۰۰۲ءتک کی روداد ہے، پھر قرأت کیلئے مدرسہ عالیہ عرفانیہ اکبری گیٹ (لکھنو) میں داخلہ لیا اور یہاں سے حفص و سبعہ کیا، یہیں رہ کر عربی ششم تک تعلیم حاصل کی، پھر دار العلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی، پھر اختصاص کیلئے حیدرآباد کا سفر کیا اور فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کے ادارہ المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد سے اختصاص فی الفقہ والافتاء اور اختصاص فی البحث و التحقیق کیا۔ مولانا کے اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے مولانا رابع حسن ندوی ؒ، حضرت مولانا واضح رشید حسنی ندوی، حضرت مولانا اسحاق حسینی ؒ، مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی اور تخصصات کے اساتذہ میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم، مفتی اشرف علی قاسمی اور دیگر شامل ہیں۔
تراویح کب سےپڑھا رہے ہیں ؟ اس سوال پر مولانا نے جواب دیا کہ ’’تراویح ۲۰۰۳ء سے پڑھا رہا ہوں۔ پہلی تراویح دہلی میں، دوسری تراویح اپنے گاؤں جھگڑوا (بہار)، تیسری تراویح اپنے گاؤں سے متصل برہمپورہ گاؤں، چوتھی تراویح لکھنؤ اور اس کے بعد سے مسلسل ۲۰۲۳ء تک کوکن کے ایک گاؤں پیوے جامع مسجد، تعلقہ چپلون، رتنا گیری میں پڑھائی، نیز میں نے ہمیشہ ۲۰؍ رکعات تراویح پڑھائی اور گزشتہ سال سے ممبرا کی نورانی مسجد میں پڑھارہا ہوں۔ یہاں امسال میرے ذمہ۴؍ رکعات ہیں، میرے ساتھ ۲؍ حافظ اور ہیں حافظ رفیق اور حافظ اسامہ وہ ۸۔ ۸؍ رکعات پڑھاتے ہیں۔ ‘‘
قرآن یاد رکھنے کےمعمول سے متعلق حافظ محمد بن عبداللہ ندوی بتاتے ہیں کہ ’’عام دنوں میں میرا معمول یہ رہتا ہے کہ میں اکثر فرائض و سنن و نوافل میں کوشش کرتا ہوں کہ ایک یا ڈیڑھ پارے روزانہ زبانی پڑھ لوں۔ جب رمضان کا مہینہ قریب آتا ہے تو رجب سے ہی ہر پارہ کے ہر صفحہ کو ۳۔ ۳؍ بار پڑھتا ہوں اور یہ طریقہ اخیر شعبان تک اپناتا ہوں۔ رمضان المبارک میں یہ معمول ہوتا ہے کہ صبح ۱۱؍ بجے سے ظہر تک گردان کرتا ہوں اس طرح کہ ایک صفحہ تقریباً ۶؍ بار دیکھ کر پڑھتا ہوں اور ساتویں بار زبانی پڑھتا ہوں، پھر جب گردان مکمل ہو جاتی ہے تو ایک بار مکمل زبانی پڑھتا ہوں اور کسی کو سنا دیتا ہوں اور پھر بسہولت عشاء سے قبل تک زبانی پڑھتا رہتا ہوں تاکہ تراویح میں بے فکر ہو کر سنا سکوں۔
حفظ کرنے کے شوق اور ترغیب سے متعلق مولانا بتاتے ہیں کہ گھر کا ماحول دینی ہی رہا ہے۔ میرے والد محترم ایک اچھے عالم اور حافظ تھے، اسی طرح میرے ۲؍ چچا بھی حافظ ہیں اور ایک چچا عربی سوم چہارم تک تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں، نیز خاندان میں کئی حافظ قرآن ہیں، گھر کے دروازے پر والد صاحب نے ایک مدرسہ شروع کیا تھا جو آج بھی چل رہا ہے۔ میرے خاندان کے علاوہ گاؤں کے اکثر بچے اور بچیاں ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کرتے ہیں۔ میں نے بھی ناظرہ قرآن یہیں ختم کیا اور یہیں سے مزید آگے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تھا۔