گزشتہ دن وزیر اعظم نریندر مودی نے ۶۰۰؍ وکلاء کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کو لکھے گئے خط پر کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ڈرانے دھمکانے اور دھونس جمانے کی یہ پارٹی کی پرانی روایت ہے جس کے جواب میں کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے نے وزیراعظم سے چار سوال پوچھے ہیں۔
ملکارجن کھرگے۔ تصویر : آئی این این
کانگریس کے چیف ملکارجن کھرگے نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان ’’دوسروں پر دھونس جمانا اور ڈرانا دھمکانا کانگریس کی پرانی روایت ہے‘‘ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کھرگے نے کہا کہ ’’مودی جی! ادارے کے ادارے آپ کے اشارے پر ’’بدمعاشی‘‘ کررہے ہیں لہٰذا اپنے گناہ کانگریس پارٹی کے سر ڈالنا بند کریں۔ کھرگے نے مودی پر اداروں کی طاقت کا غلط استعمال کرنے اور ملک کو کمزور کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ۴؍ اہم سوال قائم کئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دن چیف جسٹس آف انڈیا کو ۶۰۰؍ وکلاء کی جانب سے مکتوب روانہ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مفاد پرست گروپ‘‘ عدلیہ کی سالمیت کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے اس لئے چیف جسٹس اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کریں۔ کھر گے وزیر اعظم کے اس سوشل میڈیا پوسٹ کا جواب دے رہے تھے جس پر مودی نے اس مکتوب پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
مودی نے اپنے ایکس پر لکھا کہ ’’دوسروں پر دھونس جمانا اور ڈرانا دھمکانا کانگریس کی پرانی روایت ہے۔ ۵؍ دہائی قبل، وہ محض اپنے لئے ایک عدلیہ چاہتے تھے اور اپنے مفاد کیلئے وہ بے شرمی سے دوسروں سے عہد وپیمان کرواتے ہیں۔ لیکن ملک کے تئیں عزم سے باز رہتے ہیں۔‘‘
مودی کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس چیف کھرگے نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’’جیسے آپ ہندوستانی اداروں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں، آپ کیلئے میرے پاس چند سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے آپ کے دور حکومت میں اچانک ایک پریس کانفرس بلا کر ’’جمہوریت کو مسخ‘‘ کرنے کا انتباہ کیوں دیا؟اور ان میں سے ایک جج کو آپ کی حکومت کی جانب سے راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیو ںکیا گیا؟ آپ کی پارٹی نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے مغربی بنگال سے ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کو کیوں کھڑا کیا ہے؟اور آپ قومی عدالتی تقرری کمیشن (این جے اے سی) کو کیوں لائے جسے معزز سپریم کورٹ نے ختم کردیا تھا؟‘‘