کل بروز سنیچر ۶۵؍ویں آل مہاراشٹرتقریری مقابلے میں ریاست کے مختلف شہروں کے ۴۱؍اسکولوں کے طلبا و طالبات کی شرکت ہوگی، صبح کے وقت پہلے راؤنڈ کے بعد ۲۰؍ طلبہ کاانتخاب ہوگا۔ فائنل مقابلہ سہ پہر۳؍ بجے اسکول گراؤنڈ پر شروع ہوگا۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 2:47 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
کل بروز سنیچر ۶۵؍ویں آل مہاراشٹرتقریری مقابلے میں ریاست کے مختلف شہروں کے ۴۱؍اسکولوں کے طلبا و طالبات کی شرکت ہوگی، صبح کے وقت پہلے راؤنڈ کے بعد ۲۰؍ طلبہ کاانتخاب ہوگا۔ فائنل مقابلہ سہ پہر۳؍ بجے اسکول گراؤنڈ پر شروع ہوگا۔
کسی بڑے بحران سے باہرنکلنے میں فرد کو برسوں، سماج کو عشروں اور قوم کو صدیوں لگتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ملک کو آزادی کی سوغات کے ساتھ ہی تقسیم کا ایک گہرا زخم بھی ملا تھا۔ وہ ایک بڑی سازش تھی جس کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہوئے تھے۔ اس تقسیم کی وجہ سے قوم کی وہ تمام بااثر شخصیات جو بولنے کے فن سے واقف تھیں، اپنا حصہ لے کر سرحد پار چلی گئی تھیں۔ جو یہاں رہ گئی تھیں، ان میں سے بیشتر نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ ایسے میں ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر’ کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے اراکین کے دلوں میں ایک حسرت جاگی:
مل جاتی انہیں قوت گویائی تو کیا تھا
کچھ کہنے سے معذور ہیں تصویر کی آنکھیں
اس خیال کا آنا تھا کہ ادارے کے ذمہ داران نے نئی نسل کو قوت گویائی کے ہنر سے آشنا کرانے کی ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کی۔ اس طرح ۱۹۵۵ء میں رئیس ہائی اسکول کے زیر اہتمام ’آل مہاراشٹرا تقریری مقابلے‘ کا انعقاد عمل میں آیا جو آج تک جاری ہے۔ کل (۲۱؍دسمبر) کو اس سلسلے کا ۶۵؍واں مقابلہ ہونے والا ہے جس میں ریاست بھر کے نمائندہ اسکولوں کے تین درجن سے زائد معصوم مقررین کی شرکت ہوگی۔
پہلے مقابلے کاانعقاد
۱۹۵۵ء میں رئیس ہائی اسکول کے سابق طلبہ نے عبدالقادر انصاری کی قیادت میں ایک انجمن ’رئیس ہائی اسکول اولڈ بوائز اسو سی ایشن‘ کی بنیاد ڈالی اور قوم کیلئے کچھ کرنے کے اپنے عزم کااظہار کیا۔ ادارے کے ذمہ داران نے ان کے سامنے تقریری مقابلے کا خاکہ پیش کیا، جسے انہوں نے قبول کیا۔ اس طرح آل مہاراشٹرا پہلے تقریری مقابلے کا آغاز ہوا۔
عام طور پر اس طرح کے مقابلوں کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔ دیکھاگیا ہے کہ انٹر اسکول، ضلع و ریاستی سطح پر اس طرح کے جلسوں کا انعقاد ہرسال مختلف اسکولوں میں ہوتا ہے لیکن ان میں سے بیشتر کی عمر۷۔ ۵؍ سال سے زیادہ کی نہیں ہوتی اور جس کے ذمہ داران ذرا زیادہ سخت جان ہوتے ہیں، مزید دو چار سال کھینچ لے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام جاری رئیس ہائی اسکول کا یہ سالانہ روایتی جلسہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، بالخصوص اسلئے بھی اس پروگرام کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں تک پہلے مقابلے کی بات ہے، وہ بہت کامیاب رہا۔ اس کی کامیابی ان معنوں میں بھی یادگار ہے کہ اس نے ریاست کے ایک بہترین مقررہ کی شناخت کی، جسے آج ہم رشیدہ قاضی کے نام سے جانتے ہیں۔ جی ہاں رشیدہ قاضی اولین تقریری مقابلے کی فاتح رہی ہیں۔ اُردو دنیا بالخصوص ممبئی اور مہاراشٹر کے اردو حلقوں میں رشیدہ قاضی ایک معروف نام رہی ہیں۔ ابھی دو سال قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔
پہلے مقابلے کا ایک یادگار واقعہ
کنیڈا میں مقیم ڈاکٹر خلیل الدین تماندار نے انقلاب کو بتایا کہ پہلے تقریری مقابلے میں مہمان خاص کے طور پر اردو کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر کالی داس گپتا رضا نے شرکت کی تھی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مقابلے کی فاتح رشیدہ قاضی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب وہ بول رہی تھیں تو ایسا لگ رہا تھا کہ ایک طالبہ نہیں بلکہ مجسم اردو زبان ہم سے مخاطب ہے۔ یہ مقابلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ مشہور، مقبول اور منظم ہوتا گیا۔ چند برسوں کے بعداس مقابلے کاانتظام و انصرام خود اسکول نے سنبھال لیا۔
تقریری مقابلے کے مہمانان
رئیس ہائی اسکول کے سالانہ تقریری مقابلے میں عام طور پر بطور صدر اور مہمان خاص اچھے مقرر یا پھر اردو دنیا کی اہم اورعظیم شخصیات کومدعو کرنے کی روایت رہی ہے۔ یوسف خان (دلیپ کمار) نے اس اسٹیج کو دومرتبہ رونق بخشی ہے۔ اس کے علاہ قادر خان اور نوتن بھی یہاں پہنچ کر طلبہ کی حوصلہ افزائی کرچکی ہیں۔ تقریری مقابلے کے ابتدائی دنوں میں مشہور مجاہد آزادی مدن موہن مالویہ بھی یہاں آچکے ہیں۔ ۷۱۔ ۱۹۷۰ء کے تعلیمی سال میں منعقدہ تقریری مقابلے میں ’اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز۔ لندن‘ میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر میتھیوز کی آمد آج بھی تقریری مقابلے کے شرکاء کو یاد ہے۔ وہ اہل زبان کیلئے ایک یادگار سال رہا۔ اسی طرح مشہوراداکار مراد (رضا مراد کے والد) اور کلثوم سیانی (امین سیانی کی والدہ) بھی ان تقریبات میں شریک ہوچکی ہیں۔
مراد صاحب نے اردو کے مایہ ناز شاعر نظیر اکبر آبادی کے حوالے سے اُس وقت جو تقریرکی تھی، اس کا سحر آج بھی لوگوں پر طاری ہے اور جب بھی بزرگوں میں اس واقعے کا تذکرہ ہوتا ہے، لوگ عش عش کر اُٹھتے ہیں۔ اسی طرح کلثوم سیانی کی پُر اثر باتیں جلسے کے شرکا کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ ۲۳؍ فروری ۱۹۷۵ء کو ۱۸؍ویں تقریری مقابلے میں انجمن ترقی اردو کے روح رواں خلیق انجم تشریف لائے تھے۔ اس وقت اسکول کے طلبہ نے انجمن کے فنڈ کیلئے اپنی جانب سے چند ہ جمع کرکے ۵۶۵۲؍ روپوں پرمشتمل ایک کیسۂ زر بھی پیش کیا تھا۔
اس کے علاوہ اس تقریب کے دیگر معززین میں گورنر یونس سلیم، حامد الانصاری غازی، شکیل بدایونی، راجہ مہدی علی خاں، زہرہ نگاہ، ساحر لدھیانوی، عصمت چغتائی، بلراج ساہنی، ظ انصاری، قیصر الجعفری، سیف بھساولی، انجم رومانی، ریاض احمد خان، امین سیانی، یوسف ناظم، ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، شیام کشن نگم، ہارون رشید علیگ، ضیاء الدین بخاری، علی ایم شمسی، پی اے انعامدار، ایڈوکیٹ مجید میمن، نظام الدین گوریکر، ایڈوکیٹ سعید اختر، حسن کمال اور ڈاکٹر عبدالرؤف سمار جیسے معززین کے نام قابل ذکر ہیں۔
وہ نام جو بعد میں بڑی شخصیات بنیں
رئیس ہائی اسکول کا یہ تقریری مقابلہ ان معنوں میں بہت اہم ہے کہ جس مقصد کیلئے یہ شروع کیا گیا تھا، ابتدائی دنوں ہی سے اس کے خوشگوارنتائج ملنے لگے تھے۔ اس مقابلے میں شریک ہونے والے اور انعام یافتگان کی فہرست دیکھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اسٹیج نے کتنے ستاروں کو آفتاب و ماہتاب میں تبدیل کیا ہے۔ ان مقابلوں کے فاتحین میں ڈاکٹر رشیدہ قاضی، ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی، سید محمد زیدی، سہیل لوکھنڈ والا، زہرہ موڈک، ڈاکٹر خلیل تماندار، ڈاکٹر نیاز مومن، ڈاکٹر عبد الرحمان فقیہ اور محمد رفیع انصاری کے نام قابل ذکر ہیں۔
مقابلے پر مالیگاوں کا دبدبہ
رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے موجودہ پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری نے انقلاب کو بتایا کہ ’’اس تقریری مقابلے کی وراثت میں جہاں ہمارے اس شہر کی بے پناہ محبتیں شامل ہیں وہیں اس میں بیرون شہر مالیگاؤں، جلگاؤں ، دھولیہ، ممبرا، تھانہ، ممبئی، میرا روڈ، پڑگھا، وڈولی، تلولی، ناسک، کلیان، بلڈانہ اور دیگر کئی شہروں کے اردو اسکولوں کے جذبۂ شوق کو بھی دخل ہے۔ خاص طور سے میں مالیگاؤں کے اسکولوں کا ممنون ہوں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اس شہر نے کم از کم دس ٹیمیں یہاں بھیجی ہیں۔ یہ شہر ہمارے اس جلسے کا انتظار کرتا ہے۔ اگر دعوت نامہ روانہ کرنے میں ہم سے کچھ تاخیر ہو جائے تو مالیگاؤں سے فون آنے لگتےہیں۔ ‘‘ویسے یہ بات بھی سچ ہے کہ اس مقابلے میں مالیگاؤں کا دبدبہ اول دن سے رہا ہے۔ وہاں کے مقررطلبہ نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن۲؍ طالبات کو۲۔ ۲؍ مرتبہ اس انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے، ان کا تعلق مالیگاؤں ہی سے ہے۔ ان طالبات کا نام صنوبر ناز اور نبیلہ برکتی ہے۔ نبیلہ برکتی کے تعلق سے معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ ۲۰۱۵ء سےقطر میں ہیں اور بطور فزیو تھیراپسٹ اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
انوکھے اور اچھوتے عنوانات
رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلوں کی مقبولیت کا ایک اہم سبب اس کے عنوانات بھی رہے ہیں جو اپنے آپ میں انوکھے اوراچھوتے ہوتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اگر عنوانات اور موضوعات دلچسپ نہ ہوں تو اس سے نہ تو مقابلے میں حصہ لینے والے متوجہ ہوتے ہیں، نہ ہی سامع۔ مذکورہ مقابلے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں بطو ر سامع شامل ہونے والے بیشتر ایسے ہیں جو تواتر سے آرہے ہیں۔ وہ کسی دعوت نامے کاانتظار نہیں کرتے بلکہ وہ صرف ایک اخباری مراسلے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تقریری مقابلے سےمتعلق عنوانات کی تیاری کیلئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ بقول پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری ’’اس کیلئے شہر اور بیرون شہر کے اہل ذوق حضرات سے مشورہ کیا جاتا ہے اور ان کی مدد سےکم و بیش ۱۰۰؍ عنوانات جمع کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایسے ۱۰؍ موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جو وقت کی نبض کے ساتھ دھڑک رہے ہوں۔ اس کے بعد ان عنوانات کی نوک پلک درست کرنے، مناسب شعری پیکر میں ڈھالنے کیلئے ہم محمد رفیع انصاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ ‘‘
ملاحظہ کریں چند عنوانات
سال بھر جو کیا، سو کیا آپ نے:یہ بتاؤ ذرا، کیا پڑھا آپ نے
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا:کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
ٹیچروں کے غیر تدریسی کام : تدریس کا چکا جام
نہ رنگ ہے، نہ باس ہے: وِکاس ہی وِکاس ہے (طنز و مزاح)
مرغی کا جوبجٹ ہے، وہی دال کا بجٹ:
کیسا عجب آیا ہے اس سال کا بجٹ (طنزیہ و مزاحیہ)
کچھ پرانے موضوعات اس طرح سے ہیں :
باقی نہیں شیطاں کی ضرورت تہہ افلاک (۱۹۵۶ء)
اقبال اور نوجوان (۱۹۶۶ء)
روز جلتے رہے آشیاں (۱۹۸۷ء)
میرے خوابوں کا ہندوستان (۱۹۸۷ء)
پردہ ٹی وی کا اٹھایا تو بہت خوب کیا:
ہاں مگر دیکھ تیری آنکھ پر پردہ نہ پڑے۔ (۱۹۸۸ء)
تین سال مقابلے نہیں ہوئے
۵۶۔ ۱۹۵۵ء کے تعلیمی سال سے جاری مذکورہ تقریری مقابلہ درمیان میں ۳؍ سال کو چھوڑ کر ہر سال بلاناغہ اپنے وقت پرمنعقد ہوتا رہا ہے۔ عین سلور جبلی کے موقع پر پہلی مرتبہ رخنہ اُس وقت پڑا تھا جب ۱۹۸۰ء میں مقابلے ہی کے دن مکمل سورج گہن تھا۔ اس کی وجہ سے پروگرام کاانعقاد عمل میں نہیں آسکا تھا۔ ذمہ داران کو پہلے سے اس بات کا اندازہ نہیں تھا اور جب اندازہ ہوا تب تک کافی تاخیر ہوچکی تھی، یعنی اس وقت تعلیمی شیڈول اس قدر سخت تھا کہ بعد کی تاریخوں میں پروگرام کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد۱۹۸۴ء میں بھیونڈی میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ اس کاشمار آج بھی ہندوستان کے چند بد ترین فرقہ وارانہ فسادات میں ہوتا ہے، جس میں جہاں اربوں مالیت کی جائداد تباہ و برباد ہوئی تھی وہیں سیکڑوں انسانی جانوں کا بھی اتلاف ہواتھا۔ مادن کمیشن نے اس نقصان کا تذکرہ واضح طور پر کیا ہے لیکن ایک بڑے نقصان کا ذکر اس رپورٹ میں بھی نہیں ہے یعنی اُس سال آل مہاراشٹر اردو تقریری مقابلہ فساد کی نذر ہوگیا تھا۔ اسی طرح تیسرا مقابلہ۲۰۲۰ء میں کورونا کی وبا کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا۔
آج کی وہ اہم شخصیات جو اپنے طالب علمی کے زمانے میں بطور مقرر شریک ہوچکی ہیں
رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلوں میں شریک ہونے والے اور اس کے انعام یافتگان کی فہرست دیکھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اسٹیج نے کتنے ستاروں کو آفتاب و ماہتاب میں تبدیل کیا ہے۔ ان مقابلوں کے فاتحین میں شامل رہے:
ڈاکٹر رشیدہ قاضی
ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی
سید محمد زیدی
سہیل لوکھنڈ والا
زہرہ موڈک
ڈاکٹر خلیل الدین تماندار
ڈاکٹر نیاز مومن
ڈاکٹر عبد الرحمان فقیہ
محمد رفیع انصاری اور دیگر
رئیس ہائی اسکول کے قیام کے گولڈن جبلی سال کے موقع پر منعقدہ تقریری مقابلے میں مہمان خاص دلیپ کمار کے ساتھ ہی پرشرام ٹاورے (دائیں) اور غلام مصطفیٰ فقیہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک اور تقریری مقابلے میں قادر خان اور نوتن نے بھی شرکت کی تھی۔ مذکورہ دونوں مہمانوں کے درمیان کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے اُس وقت کے جنرل سیکریٹری مرتضیٰ فقیہ موجود ہیں۔
یہ تصویر ۹۳۔۱۹۹۲ء کے تقریری مقابلے کی ہے جس میں شاد آدم شیخ ٹیکنیکل اسکول کے طالب علم سکٹے تبریز احمد محمد اسماعیل نے اُس وقت کے مہمان خاص ہارون رشید علیگ سےبہترین مقرر کاانعام حاصل کیا تھا۔ یہ طالب علم اِس وقت خلیجی ملک میں بحیثیت انجینئر اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔