• Sat, 01 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

۷۰؍ سے ۹۰؍ گھنٹہ کام کی وکالت کرنےوالوں کو معاشی سروے میں منہ توڑ جواب

Updated: February 01, 2025, 4:18 PM IST | Agency | New Delhi

ملک میں  ہفتے میں۷۰؍ سے ۹۰؍ گھنٹے کام کیلئے چھیڑی گئی بحث کے دوران جمعہ کو پیش کئے گئے اقتصادی اور معاشی سروے میں متنبہ کیاگیاہے کہ ہفتے میں۶۰؍ گھنٹے سے زیادہ کام ذہنی صحت کو نقصان پہنچا سکتاہے۔

Working hours in corporates vary. Photo: INN
کارپوریٹس میں کام کے اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

ملک میں  ہفتے میں۷۰؍ سے ۹۰؍ گھنٹے کام کیلئے چھیڑی گئی بحث کے دوران جمعہ کو پیش کئے گئے اقتصادی اور معاشی سروے میں متنبہ کیاگیاہے کہ ہفتے میں۶۰؍ گھنٹے سے زیادہ کام ذہنی صحت کو نقصان پہنچا سکتاہے۔ سنیچر کو قومی بجٹ پیش کئے جانے سے ایک روز قبل جاری کئے گئے معاشی سروے میں  کہا گیا ہے کہ جو لوگ ۱۲؍ گھنٹے یا ا س سے زیادہ اپنے ڈیسک (دفتر میں   کام کرنے کی جگہ) پر گزارتے ہیں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں  یا پھر انہیں  اپنی ذہنی صحت کو بہتر رکھنے میں جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ 
 سروے میں ’’پیگا ایف نفرادی بی‘ (۲۰۲۱ء) کے ایک مطالعہ اور کام سے متعلق بیماریوں   کے حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نیز آئی ایل او کے اعدادوشمار کے تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سروے میں  کہاگیا ہے کہ ’’حالانکہ کام کی جگہ پر گزارے گئے گھنٹوں  کی بنیاد پر غیر رسمی طور پر یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ وہ کتنا کارآمد ہےمگر ایک سابقہ مطالعہ میں  یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہفتے بھر میں  جب کام کے گھنٹے ۵۵؍ تا۶۰؍ سے تجاوز کرجاتے ہیں تو اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ‘‘
 سیپئن لیب سینٹر فار ہیومن برین اینڈ مائنڈ کے ذریعہ کئے گئے ایک تفصیلی مطالعہ کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سروے میں  مزید کہاگیاہے کہ ’’کسی کا دفتری میز پر زیادہ وقت گزارنا دماغی تندرستی کیلئے اتنا ہی نقصان دہ ہے۔ وہ افراد جو دفتر کے ڈیسک پر ۱۲؍ یا اس سے زیادہ گھنٹے گزارتے ہیں ان کی ذہنی تندرستی کی سطح پریشان اورمشکل ہوتی ہے۔ ان کی دماغی تندرستی کا اِسکور اُن لوگوں سے جو ۲؍ گھنٹے یا اس سے کم ڈیسک پرگزارتے ہیں سے تقریباً۱۰۰؍ پوائنٹس کم ہوتا ہے۔ ‘‘ ڈبلیو ایچ او کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ عالمی سطح پر دفتر میں   ذہنی تناؤ اوربے چینی کی وجہ سے ہر سال کام کے کم از کم ۱۲؍ ارب دن بیکار ہوجاتے ہیں اور ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جسے اگر ہندوستانی کرنسی میں  بدلیں  تو یومیہ ۷؍ ہزار روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ 
  یاد رہے کہ ہفتے میں  ۷۰؍ سے ۹۰؍ گھنٹے کام کرنے کی بحث انفوسیس کے بانی نارائن مورتی نے چھیڑی تھی جنہوں  نے ۷۰؍ گھنٹے کام کرنے کی وکالت کی تھی۔ اس کےبعد لارسن اینڈٹبرو لمیٹڈ کے سربراہ ایس این سبرمنین نے نارائن مورتی سے آگے بڑھتے ہوئے یہ کہہ کر ہفتے میں  ۹۰؍ گھنٹے کام کرنے کی وکالت کی کہ اتوار کو چھٹی لے کر کوئی کتنی دیر تک اپنی بیوی کو تکتے رہ سکتا ہے۔ اس کے برخلاف مہندرا گروپ کے مالک نے ملازمین کے کام کے گھنٹے بڑھانے کے بجائے انہیں  زیادہ کارآمد بنانے کی وکالت کی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK