• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ ۷۰۰؍ سالہ تہذیبی روایت ختم نہیں کی جاسکتی‘‘

Updated: October 23, 2024, 11:57 AM IST | Hameedullah Siddiqui | Lucknow

یوپی کے مدرسوں کے تعلق سے مقدمہ کی سماعت میں عدالت عظمیٰ کا اہم تبصرہ، فیصلہ محفوظ کرلیا، ملی تنظیمیں پُرامید۔

A bench headed by the Chief Justice has commented in favor of Madrasas. Photo: INN
چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے مدارس کے حق میں تبصرے کئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

 اترپردیش کے مدارس پر جہاں ان دنوں ہرطرف سے حملے ہورہے ہیں اور ان پرشکنجہ کسنے کی سازشیں ہورہی ہیں وہیں سپریم کورٹ سے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس(این سی پی سی آر) کی سفارشات اورحکومتی احکامات پرپیرکے روز’اسٹے‘ دے کر عدالت نے ایک واضح پیغام دینے کی کوشش کہ آئینی اداروں کو بھی آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی پیر اور منگل کو۲؍ دنوں کی مسلسل شنوائی اور بحث مکمل کراکے یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ کسی مخصوص طبقےکے پورے تعلیمی نظام کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، بالخصوص مذہبی تعلیم کوختم نہیں کیا جا سکتا جو ہندوستان کی ۷۰۰؍سالہ مشترکہ تہذیبی روایت کا حصہ ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی سہ رکنی بینچ نے یوپی کے امدادیافتہ اور منظورشدہ مدارس سے متعلق مقدمہ پر یہ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ مدارس سےوابستہ افراد بالخصوص عدالت میں ایس ایل پی داخل کرنے والی تنظیمیں فیصلے کے تعلق سے پُر امید ہیں۔ 
 الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے ۲۲؍مارچ ۲۰۲۴ءکواپنے ایک فیصلہ میں یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ ۲۰۰۴ء کوغیرآئینی قراردیتے ہوئے اسے منسوخ کردیا تھا اورمدارس میں زیرتعلیم طلبہ کودیگر اسکولوں میں داخل کروانے کا فرمان سنایا تھا۔ ۵؍ اپریل ۲۰۲۴ء کوسپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پرروک لگا کرپورے معاملہ کی ازسر نو سماعت کرنےکیلئے جولائی ۲۰۲۴ء کے تیسرے ہفتہ کی تاریخ طے کی تھی مگرکئی بارتاریخ طے ہونے کے بعد بھی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔ بالآخر ۲۱؍ اور ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو معاملہ پر تفصیلی سماعت ہوئی اورفیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بینچ نے کئی اہم تبصرے کئے۔ عدالت نے واضح انداز میں کہا کہ مذہبی تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ یا کنٹرول کرنے والے کسی بورڈ یا ادارے کوسیکولرازم کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ `سیکولرازم ’جیو اور جینے دو‘ کے فلسفہ پرمبنی ہے۔ عدالت نے کہا کہ مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنا ایسا ہے جیسے کسی ٹب میں نہا رہے بچے کو پانی سے باہر پھینک دینا۔ وکلاء کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل ۲۸(۲)کے مطابق سرکاری امداد یافتہ اداروں میں مذہبی تعلیم یا ہدایات دینے پر پابندی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۲۸(۳ )یہ حق فراہم کرتا ہے کہ ایک طالب علم رضاکارانہ طور پر مذہبی تعلیم حاصل کر سکتا ہے مگر بنیادی شرط یہ ہے کہ کوئی زبردستی نہیں ہونی چاہئے۔ این سی پی سی آر اور انشومن سنگھ راٹھورکے وکلاء بشمول سینئر ایڈوکیٹ مادھوی دیوان نے مدارس کی تعلیم کو سیکولرازم کے خلاف اورنظام تعلیم کو ’رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۹ء‘ کے منافی قرار دیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ مدارس میں کوالٹی ایجوکیشن کی کمی ہے اوروہاں زیرتعلیم طلبہ کوجدید ولازمی تعلیم کے حق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ مدارس کے وکلاء نے اس دلیل کویہ کہتے ہوئے ردکردیا کہ کسی بھی بچہ کااپنی پسند کی تعلیم حاصل کرنا اور والدین کااپنی مرضی کے مطابق اپنی اولاد کوتعلیم دلانا بنیادی حقوق میں ہے جس پر روک نہیں لگائی جا سکتی۔ ان وکلاء نے مدرسہ بورڈ کی نصابی کتابوں کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ مدارس میں جدید تعلیم کا معقول نظم ہے، البتہ مدارس کے فاضل اور کامل ڈگری کو کسی یونیورسٹی سے الحاق کرانے کی ضرورت ہے، جس کے لئے مدرسہ بورڈ کی جانب سے کئی بار حکومت کوتجویز بھیجی گئی مگر ابھی تک اس پرمنظوری نہیں دی گئی۔ مجموعی طور پر عدالت نے مختلف نظیروں اور عدالتی فیصلوں کے حوالے سے یہ کہا کہ حکومت کو مدرسہ نظام تعلیم میں ترمیم اور اسے بہتر، جامع اور عصری تقاضوں کے ہم آہنگ بنانے کا پورا اختیار ہے مگر چند اعتراضات اور خامیوں کی وجہ سے پورے مدرسہ نظام کوختم کردینا، جائز قرارنہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا مدرسوں کی طرح دیگر مذاہب کے بھی تعلیمی ادارے سرکاری امداد سے چل رہے ہیں جو کسی نہ کسی مذہب کے زیراثرپروان چڑھے ہیں اور ان کی سائنسی اہمیت بھی ہے۔ اب متعلقہ فریقوں کی نگاہیں فیصلے پر ٹکی ہوئی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK