• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان کی آزادی کے ۷۷؍ سال اور مسلمان!

Updated: August 15, 2024, 12:32 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

اگر ملک کی چودہ فیصد مسلم اقلیت پسماندہ رہتی ہے اور طرح طرح کی ذہنی الجھنوں کا شکار رہتی ہے تو کیا ہمارے وزیراعظم کا وشو گرو ہونے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستان میں عدم تحمل اور رواداری کے موضوع پر خوب بحثیں ہو رہی ہیں۔ ایک طبقہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ملک میں عدم تحمل کا ماحول قطعی نہیں ہے اور موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کے لئے عدم رواداری کا سوال اٹھایا جارہا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ ایسا ہے جو اپنے تمام تر دلائل کے ساتھ یہ ثابت کر رہا ہے کہ ملک میں عدم تحمل اور عدم رواداری پر وان چڑھ رہا ہے۔ گزشتہ دن اسی موضوع پر منعقدہ ایک مذاکرے میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ وہاں بیشتر مقررین کا خیال تھا کہ ملک میں جو وقتی عدم تحمل کا ماحول ہے وہ سیاسی ہے اور جلد ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مذاکرے میں آر ایس ایس نظریات کے بھی حامیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی اور وہ اپنے دلائل سے موجودہ حکومت کی طرفداری کر رہے تھے۔ اگرچہ میرا مقصد نہ موجودہ حکومت پر نشانہ لگانا تھا اور نہ کسی خاص سیاسی جماعت کی ہمنوائی کرنا۔ میری نظر میں تو عدم تحمل کا ماحول پیدا ہونا، موجودہ ہندوستانی سماج کی ذہن سازی کا آئینہ دار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس ذہن سازی میں سنگھ پریوار کا اہم کردار رہا ہے۔ خواہ وہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو۔ چونکہ ہمارا ملک جمہوری ہے اس لئے مرکز یا ریاستوں میں حکومت کی قیادت میں تبدیلی لازمی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہندستان میں برسوں تک مرکز میں ایک خاص سیاسی جماعت کی حکومت رہی ہے اور مختلف ریاستوں میں بھی کسی ایک سیاسی جماعت کا دبدبہ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے فکری طور پر سماجی جمود کا ماحول بھی قائم ہوا ہے۔ نتیجتاً آج جب کسی خاص نظریے کی وکالت کرنے والی حکومت قائم ہوئی ہے تو اس نظریے کے مبلغین کا حوصلہ بڑھنا ایک فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی گلیاروں سے لے کر اکیڈمک پلیٹ فارم تک ایک خاص نظریے کی تبلیغ کی جارہی ہے۔ مثلاً حال ہی میں ملک کی بڑی یونیوسٹی، دہلی یونیورسٹی میں ایک خاص نظریے کے علمبرداروں نے نصاب میں منو سمرتی کو شامل کرنے کی پہل کی۔ ظاہر ہے کہ یہ ملک کا ایک حساس مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود حکمراں جماعت کے ایک متنازع لیڈر نے اس مذاکرے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس میں شریک ہو کر غیر جمہوری بیان بازی بھی کی۔ اس سے قبل بھی حکمراں سیاسی جماعت بھاجپا کے کئی ممبران پارلیمنٹ نے مذہبی اور سیاسی متنازع بیانات دیتے رہے ہیں۔ جس کی اجازت ہمارا آئین کبھی نہیں دیتا۔ کیونکہ ہمارے آئین میں اظہار آزادی تو ہے لیکن وہ آزادی مشروط ہے کہ کسی کے بیان سے دوسرے کی دل آزاری نہ ہو۔ مگر سچائی یہ ہے کہ جب سے مرکز میں مودی حکومت قائم ہوئی ہے اسی دن سے غیر آئینی بیان بازیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ اتر پردیش کے کئی گائوں میں جو فرقہ وارانہ تنازعے ہوئے ہیں اس کے پس پردہ ان ہی لیڈروں کی اشتعال انگیز بیان بازی ہے اور کئی اقلیت طبقے کے افراد کا بہیمانہ قتل تو ہماری جمہوریت پر بد نما داغ ہے۔ 
در اصل ملک میں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اقلیت طبقے بالخصوص مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل میں الجھائے رکھنا مقصود ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ فساد، کبھی اہانت رسولؐ، کبھی بابری مسجد، کبھی گائے کشی، تو کبھی دہشت گردی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی و جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا مسئلہ، تو کبھی لو جہاد، کبھی تین طلاق اور اب وقف ترمیمی بل اور چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو اپنے نام کی تحتی لگانے کا فرمان۔ غرض کہ مسلمانوں کو مسلسل مسائل سے دوچار رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ۷۷؍سال بعد بھی اس ملک کی ایک بڑی اقلیت پسماندگی کی شکار ہے۔ جب کہ موجودہ حکومت ۲۰۴۷ء تک ہندوستان کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر ملک کی چودہ فیصد مسلم اقلیت پسماندہ رہتی ہے اور طرح طرح کی ذہنی الجھنوں کا شکار رہتی ہے تو کیا ہمارے وزیر اعظم کا وشو گرو ہونے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
مختصر یہ کہ ان دنوں جو عدم تحمل و عدم رواداری کاماحول پیدا کیا جارہا ہے وہ مذکورہ سازش کا ہی ایک حصہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غلام ہندستان میں انگریزی حکومت کے ذریعہ بھی اسی طرح کی مذہبی اور سماجی منافرت پھیلائی جاتی تھی مگر اس وقت ہمارے ملک کی قائدین بابائے قوم مہاتما گاندی، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لعل نہرو، سبھاش چندر بوس، راجندر پرساد، محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور ڈاکٹر انصاری جیسے علم بردار انسان موجود تھے اور ان سب کا ایک واحد مقصد ملک کو آزاد کرانا تھا۔ اس لئے جب کبھی انگریزوں کے ذریعہ اس طرح کی عدم رواداری اور فرقہ وارانہ فضا تیار کی جانے لگی تو تمام لیڈروں نے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کیا اور اپنی تہذیبی و تمدنی شناخت کو برقرار رکھا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ملک ہندستان گہوارۂ امن و آشتی ہے۔ یہاں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی مشہور زمانہ کتاب ’’ہند سوراج‘‘ کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ہزاروں سال سے ہندستانی لوگ مذہبی تحمل اپناتے رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے اعتقاد اور مذہب کو احترام سے دیکھتے آرہے ہیں۔ انگریزوں کے ذریعہ ہندو مسلم تفریق کی بیج بونے سے قبل ملک میں کئی فرقے اور مذہب کے لوگ امن اور چین سے رہتے تھے‘‘۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے یہ بات ۱۲۰؍سال قبل کہی تھی۔ ملک کے حالات حاضرہ سے نہ صرف مسلمان دہشت میں ہیں اور فکر مند ہیں بلکہ ملک کی اکثریت بھی اس طرح کے ماحول کو ملک کی سا لمیت کیلئے مضر تصور کرتے ہیں۔ اسی لئے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے سرکاری انعامات واپس کر احتجاج بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غورو فکر کرنے کے بجائے اس طرح کے لیڈروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جو ملک میں عدم تحمل و رواداری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ آج جب ہم اپنی آزادی کی ۷۷؍ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمیں اپنے آئین کے اخلاقی سبق بھی یاد رکھناچاہئے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد بھی لینا چاہئے۔ کیونکہ جمہوری تقاضوں کی اندیکھی اور آئین کے تقاضوں کی خلاف ورزی سے ہی ملک میں عدم رواداری و عدم تحمل کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK