اے پی سی آر کی پریس کلب میںپریس کانفرنس۔ غیرضروری چھاپے، ہراساں کرنے اوردھمکی دینے کی پُرزور مذمت۔ عوام کواپنے حقوق کے تحفظ اور حصولیابی کیلئے بے خوف ہوکر آواز بلند کرنے کا مشورہ۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 5:09 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
اے پی سی آر کی پریس کلب میںپریس کانفرنس۔ غیرضروری چھاپے، ہراساں کرنے اوردھمکی دینے کی پُرزور مذمت۔ عوام کواپنے حقوق کے تحفظ اور حصولیابی کیلئے بے خوف ہوکر آواز بلند کرنے کا مشورہ۔
پولیس کے مظالم، بے جاگرفتاریاں ، دھمکی اور ہراساں کرنے کے خلاف یونائیٹڈ اگینسٹ اِن جسٹس اور ڈسکریمنیشن (یو اے آئی ڈی) اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے اشتراک سے ۶؍دسمبر بروز جمعہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
خاموش رہنا مسئلے کا حل نہیں
صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے معروف سماجی خدمت گاراورمہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے صاف لفظوں میں کہاکہ ’’یہ ناقابل برداشت ہے، عوام کواپنے حقوق کی حفاظت اورپولیس کی زیادتی کے خلاف اب سڑکوں پر اترنے کا وقت آگیا ہے۔ خاموش رہنا مسئلے کا حل نہیںہے بلکہ آواز اٹھانے اور میدان میںآنے سے ہی یہ سلسلہ رُکے گا اورہم اپنے آئینی حقوق کو محفوظ رکھ سکیںگے۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ ندیم خان کے معاملے میںبھی اسی طرح کی زیادتی اور پولیس کی من مانی نظرآرہی ہے۔ اسے بہرحال روکنا ہوگا اوریہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم بیدار ہونے کا عملی ثبوت دیں گے۔‘‘
۱۳؍دسمبر تک پیشگی ضمانت بڑھادی گئی ہے
پریس کانفرنس میںخاص طورپر دہلی پولس کے ذریعہ اے پی سی آر کے قومی سیکریٹری ندیم خان کو ہراساں کرنےکا موضوع چھایا رہا ۔اس موقع پریہ مطالبہ کیا گیا کہ ان کوہراساں کرنے کا سلسلہ فوراً بند کیا جائے۔ ندیم خان نے پولیس کی کارروائی کے بعد پیشگی ضمانت حاصل کرلی تھی۔ اب عدالت نے ان کی پیشگی ضمانت ۱۳؍دسمبر تک بڑھادی ہے۔
یادر ہے کہ اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) ایک ایسی تنظیم ہے جو شہری آزادیوں کو برقرار رکھنے، انصاف کو یقینی بنانے اور سب کے لئے مساوات کو فروغ دینے کے لئےخدمات انجام دیتی ہے اور اس وقت ملک کے الگ الگ حصوں میں انسانی حقوق کے تحفظ اور شہری آزادی سے متعلق کئی معاملات میں متاثرین کوقانونی مدد فراہم کر رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مختلف ہائی کورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ میں بھی مقدمات لڑرہی ہے۔
اس پریس کانفرنس کے دوران یہ واضح کیا گیا کہ پولیس کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی تحقیقات میں یہ تنظیم تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔شرط یہ ہے کہ تمام تحقیقات قانون کے دائرے میں اورضابطے کے مطابق ہوں۔
عوام بہت خطرناک دور میں داخل ہوچکے ہیں
بھارت جوڑو ابھیان کی فعال رکن اورآدیواسی لیڈر اُلکا مہاجن نے اس پر زور دیا کہ’’ ہمیں متحد ہونے اوربے خوف ہوکر لڑنے اوراپنے حقوق کےلئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں ان موضوعات کواٹھائیں ۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’اب عوام کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ بہت خطرناک دور میںداخل ہوچکے ہیں ،اس لئے ان کوبے خوف ہوکرسڑکوں پر بھی اترنا ہوگاتاکہ ہم حکومت کو یہ بتاسکیںکہ وہ ظلم ،پولیس کی طاقت ، نئے قوانین ، من مانی اور اپنے مختلف حربوں سے حق وانصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتی اورنہ ہی ہماری آواز دباسکتی ہے۔‘‘
ٹویٹرپرگردش کرنے والے ویڈیو کوبنیاد بنایاگیا
پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے رکن ڈاکٹر سلیم خان نےکیس کی تفصیلات بتاتےہوئے کہا کہ’’ ۳۰؍نومبرکو تقریباً ۵؍بجے شام شاہین باغ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اپنے ۴؍ افسران کے ساتھ بنگلور پہنچے اور ندیم خان سے کہا کہ ٹویٹر پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کے تعلق سے پوچھ تاچھ کےلئے وہ اُن کے ساتھ دہلی چلیں۔ ایس ایچ او کوئی وارنٹ یا نوٹس لے کر نہیں آئے تھے، انہیں محض ایف آئی آر کی کاپی دکھائی (ایف آئی آر نمبر ۰۲۸۰/۲۰۲۴، شاہین باغ، پولیس اسٹیشن، نئی دہلی) جس میں ان کا نام ٹویٹر پوسٹ کی بنیاد پرشامل کیا گیا ہے۔وہ دائیں بازو کا ایک بدنام زمانہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔ ‘‘ انہوں نےیہ بھی بتایاکہ ’’اتنا ہی نہیں بلکہ دہلی لے جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کے تقریباً ۶؍ گھنٹے بعد ہی پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہیتا کی دفعہ ۳۵(۳) کے تحت ایک نوٹس پیش کیا، جس میں انہیں تفتیش میں شامل ہونے کو کہا گیا۔‘‘
خاطی افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
اے پی سی آرمہاراشٹر کے کارگز ار صدر محمداسلم غازی نے کہاکہ ’’دہلی پولیس کی ایف آئی آر بدنیتی پر مبنی ہے۔ اے پی سی آر واضح طور پر قانون کی حکمرانی اورانصاف کے عمل کے لئے اپنی وابستگی پر زور دیتی ہےاور قانون نافذ کرنے والے حکام سے اپنے کام کاج میں شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کرتی ہے۔اسی طرح یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران خاطی افسران کے خلاف سخت کارروائی کریں تاکہ آئندہ اس طرح کے حالات نہ پیدا ہوں اورنہ ہی کسی غلط طریقے سے ہراساں کیا جاسکے۔ ‘‘