Updated: November 09, 2024, 9:43 AM IST
| New Delhi
سپریم کورٹ نے ۱۹۶۷ء کے اُس متنازع فیصلے کو باطل قرار دے دیا جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی کردار سےمحروم کرنے کا جواز بنایا گیا تھا، آئینی بنچ نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ میں بنائے گئے ایکٹ سے قانونی طور پر وجود میں آنے والا ادارہ بھی اقلیتی ادارہ ہوسکتا ہے، یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ ختم کرنے کے ۲۰۰۶ء کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اب سہ رکنی بنچ میں سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ کی ۷؍ رکنی آئینی بنچ جس نے جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا۔ تصویر: پی ٹی آئی
اقلیتی درجہ کی قانونی لڑائی میں جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے سپریم کورٹ میں تاریخی فتح حاصل کی ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی ۷؍ رکنی آئینی بنچ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کے کیس میں ۳؍ کے مقابلے ۴؍ ججوں کی اکثریت سے دور رس نتائج کا حامل اور تاریخی فیصلہ سنایا۔ عدالت نے ۱۹۶۷ء کے ’’ ایس عزیز باشا بنام حکومت ہند ‘‘ کیس میں سنائے گئے اپنے ہی فیصلے کو باطل قراردے دیا جس کے ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے اقلیتی درجہ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہٹ گئی۔ یاد رہے کہ ۱۹۶۷ء کے عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ نے کہاتھا کہ وہ تعلیمی ادارے جن کا وجود پارلیمنٹ میں بنائے گئے قانون سے عمل میں آتا ہے، اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ نے کہا کہ ’’عزیز باشا کیس میں اختیار کی گئی اس رائے کو باطل قرار دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ادارہ اپنی قانونی حیثیت پارلیمنٹ میں پاس ہونےوالے کسی قانون سے حاصل کرتا ہے تو اقلیتی درجہ کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔‘‘
آئینی بنچ کو کس نکتے پر غور کرنا تھا؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی لڑائی سپریم کورٹ میں اس وقت پہنچی جب الہ آباد ہائی کورٹ نے عزیز باشا کیس کےفیصلے کو بنیاد بنا کر ۲۰۰۶ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کردیا۔اس وقت مرکز میں یو پی اے حکومت تھی ۔ یونیورسٹی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور حکومت بھی اس کے ساتھ سپریم کورٹ گئی مگر ۲۰۱۶ء میں بی جےپی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت نے سپریم کورٹ میں عزیز باشا کیس کا ہی حوالہ دیتے ہوئے اپنی اپیل واپس لے لی۔ اس کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی نے اپنی لڑائی خود لڑی۔ اس آئینی نکتے پر غور کرنے کیلئے کہ کسی ادارہ کو اقلیتی درجہ کب مل سکتاہے، معاملہ آئینی بنچ کے حوالے کردیا گیا۔ چیف جسٹس کی قیادت والی ۷؍ رکنی بنچ کو اس نکتے پر غور کرنا تھا کہ’’کسی تعلیمی ادارے کوکن بنیادوں پر اقلیتی تعلیمی ادارہ مانا جاسکتا ہے؟ کیا کسی ادارے کواس بنیاد پر اقلیتی ادارہ مانا جاسکتاہے کہ اسے کسی مخصوص مذہبی یا لسانی اقلیت کے فرد یا افرادنے قائم کیا ہے یا پھر اس بنیاد پر کہ اس کی دیکھ ریکھ اور نظم ونسق مذہبی یا لسانی اقلیتوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے؟‘‘
بنچ اس سوال کے جواب تک پہنچتے پہنچتے۲؍ حصوں میں تقسیم ہوگئی جس کی وجہ سے ۳؍ ججوں نے اپنا اقلیتی فیصلہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈکی قیادت میں ۴؍ ججوں نے اپنا اکثریتی فیصلہ سنایا ۔ ۱۱۸؍ صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ ہی نافذ العمل ہوگا۔
اکثریتی فیصلے میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ کے ساتھ نامزد چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا شامل ہیں جبکہ اقلیتی فیصلہ جسٹس سوریہ کانت ،دیپانکرد تّا اور ایس سی شرما نے سنایا۔ بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں کام کاج کے اپنے آخری دن سنائے گئے فیصلے میں جسٹس چندر چُڈ نے کہا ہے کہ ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر کوئی تعلیمی ادارہ مذہبی یا لسانی اقلیت کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے تو وہ اقلیتی تعلیمی ادارہ ہوگا۔‘‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے یہ بھی کہاکہ ’’ہم یہ بھی وضاحت کرچکے ہیں کہ کسی ادارہ کے اقلیتی ادارہ ہونے کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری نہیں ہے کہ اس کا انتظام اقلیت کے پاس ہے۔‘‘
پارلیمنٹ کے ذریعہ یورسٹی کے قیام کا نکتہ
چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلے میں ادارہ کے قیام اور بعد میں پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے قانون کے تحت اسے یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے فرق کو بھی واضح کیا۔انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کو قانون کے ذریعہ یونیورسٹی بنا دیئے جانے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اسے اقلیتوں نے ’قائم‘ نہیں کیاتھا۔ انہوں نے کہا کہ صرف اس لئے کہ قانون کہتا ہے کہ اسے یونیورسٹی کو قائم کرنے کیلئے پاس کیاگیا ہے، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یونیورسٹی کو پارلیمنٹ نے بنایاہے۔ کورٹ نے واضح کیا کہ اس طرح تو اقلیتوں کو اپنے تعلیمی اداروں کے قیام کا حق فراہم کرنےو الے آرٹیکل ۳۰؍ کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جائےگا۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے کہا کہ ’’آرٹیکل ۳۰ (۱) کے تحت یونورسٹی کے قیام کے حق کا اطلاق آئین کے وجود میں آنے سے پہلے کے اداروں پر بھی ہوگا۔‘‘
اقلیتی کردار پر سہ رکنی بنچ فیصلہ کریگی
جمعہ کو سنائے گئے فیصلے میں یہ طےکردینے کے بعد کہ کسی ادارہ کو کس بنیاد پر اقلیتی درجہ دیا جا سکتاہے، چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل ۳۰؍ کی رُو سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں ،اس کا فیصلہ معمول کی سہ رکنی بنچ کرےگی۔ اس بنچ کا قیام چیف جسٹس کی ہدایت پر عمل میں آئےگا۔ یاد رہے کہ عزیز باشا کیس کو بنیاد بنا کر الہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۰۰۶ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ سے محروم کر دیا تھا۔ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیاہے۔ اسی مقدمے کی سماعت کے دوران یہ نکتہ ابھر کرآیاتھا کہ کس ادارہ کو اقلیتی ادارہ قرار دیا جاسکتاہے اور کسے نہیں۔ آئینی بنچ نے یہ طے کر دیا ہے اور اب سہ رُکنی بنچ اسی کی بنیاد پر یہ طے کریگی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔
ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعہ کو اقلیتی ادارہ ہونے کیلئے جو شرائط طے کردی ہیں،ان کو ثابت کرنا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے مشکل نہیں ہوگا اورا س طرح نہ صرف یہ کہ اس فیصلے سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر مہر لگ جائے گی بلکہ یہ فیصلہ اقلیتی اداروں کے حقوق پر بھی مہر ثبت کردیتاہے۔