جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ملک کی اہم سماجی و تعلیمی شخصیات کے اجلاس میں فیصلہ، تشار گاندھی کو فورم کا صدر بنایا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 23, 2024, 11:51 AM IST | Farzan Qureshi / Saeed Ahmed Khan | Mumbai
جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ملک کی اہم سماجی و تعلیمی شخصیات کے اجلاس میں فیصلہ، تشار گاندھی کو فورم کا صدر بنایا جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کےصدر مولانا محمود مدنی کی دعوت پر گزشتہ روز دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی کے مدنی ہال میں ملک کی مختلف سماجی و تعلیمی شخصیات کا ایک اجتماع منعقد ہوا، جس میں وطن عزیز میں پیدا کرہ معاشرتی تفرقہ اور بے چینی پر تفصیل سے تبادلۂ خیال ہوا۔ اس اجتماع میں گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی اور فرقہ پرستی کے خلاف متحدہ پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کیا جو قومی سطح کا فورم ہو گا۔ اس سلسلے میں مزید مشورےکے بعد جلد ہی ایک کمیٹی کا بھی اعلان کیا جائے گا۔
ملک کی اہم سماجی ضرورت کو پورا کرنے اور ملک سے فرقہ پرستی کو ختم کرنے کے لئے کی گئی اس پہل پر معروف سماجی خدمتگار اور گاندھی جی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ’’سب سے بنیاد ی عمل یہ ہے کہ ہمیں نفرت اور اس کے زہر سے لڑنا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوںکو ساتھ لینا ہے تاکہ ان کےذہنوں کوپراگندہ نہ کیا جاسکے۔‘‘ انہوں نے آئندہ کی حکمتِ عملی کے تعلق سے بتایا کہ’’ جس طرح کے حالات ہیں اس میں اجلاس تو اہم ہیں ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقل طور پرکام کیا جائے اور دیگر تنظیموں اور مزید اہم شخصیات کو جوڑا جائے کیونکہ یہ لڑائی طویل ہے اور اس کے لئے اسی حساب سے تیاری کرنی ہوگی۔اس لئے اب آئندہ اجلاس دن بھر کا ہوگا۔‘‘ تشار گاندھی نے مزید کہاکہ ’’ جمعیۃ کےپلیٹ فارم سے جوآواز بلندکی گئی ہے وہ بہت اہم ہے، اسے ہمیںآزادیٔ وطن کے وقت کے حالات کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ اس وقت علماء نے کتنی زبردست قربانیاں دی تھیں۔وہ علماء ہی تھے جنہوں نےتقسیم وطن کی مخالفت کی اورملک سے جانے والوں کو سمجھایا جس کا مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ آج بھی اسی طرح کے طرز عمل کی ضرورت ہے۔اس لئے ہمیں مل جل کر نفرت کےخلاف لڑنا ہے اور اس میں ہر اس شخص کا تعاون درکار ہوگا جو امن وآشتی، پیار ومحبت ،بھائی چارے اورانسانیت میں یقین رکھتا ہے۔‘‘
جمعیۃ علماء ہندکے صدرمولانا سید محمودمدنی سے اس تعلق سے استفسار کرنے پرانہوں نے کہا کہ ’’جمعیۃ کی جانب سے یہ پہلا اجلاس نہیں ہے بلکہ تقریباً ڈیڑھ سال سے اس طرح کے اجلاس کئے جارہے ہیں ا ور برادران وطن کی اہم شخصیات کو مدعو کیا جارہا ہےلیکن اب یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اس سے آگے بڑھ کرمستقل کام کیا جائے ۔اس لئے یہ طے پایا ہےکہ ایک قومی سطح کا فورم بنایا جائے۔اس کی سربراہی تشار گاندھی کریں گے۔ اس فورم میںکئی اہم شخصیات ہوں گی جو ملک کے حالات پر نظر رکھیں گی اور فرقہ پرستی کے معاملات پر حکومت کی توجہ مبذول کروائیں گی ۔ ‘‘مولانا نے یہ بھی کہاکہ ’’ دہلی سے قبل حیدرآباد ،ممبئی اوردیگرشہروں میںبھی اس طرح کے اجلاس منعقد کئے جاچکے ہیںمگرکسی حکمت کے تحت اس کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی لیکن اب باقاعدگی سے اس پرتوجہ دےکر مستقل کام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
اس سے قبل ہونے والے اجلاس میںمولانا محمود مدنی نے افتتاحی کلمات میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد مہمان خصوصی تشار ارون گاندھی نے اپنے کلیدی خطاب میں مسلمانوں کی موجود ہ صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ دائیں بازو کا گروہ سی اے اے) ، این آر سی اوروقف کا مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کررہا ہے۔ساتھ ہی انہیں ہجومی تشدد میں مسلسل نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت عام لوگوں کی توجہ ان پالیسیوں سے ہٹانے میں کامیاب ہوتی ہے جو اقلیتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مخالف کے طور پر پیش کرکےدیگر اقلیتی مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور تعصب کو فروغ دیا جارہا ہے۔
تشار گاندھی نے مستقبل کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیا کہ اگر منظم طور پر مسلمانوں کو علاحدہ کرنے کی سازش جاری رہی تو یہ بالآخر سنگین تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں جو اقلیتوں کو حاشیے پرڈھکیلنے کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ تشار گاندھی نے اپنے خطاب کے اختتام پر اجتماعی جد وجہد کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا محمود مدنی نے کہا کہ آج برادرانِ وطن کو ہمارے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے، ہمیں سیاسی اور سماجی طور پر مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب سے اہم کردار اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد کو ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج آزادی سے سڑک پر چلنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ممبئی جارہی ٹرین کے واقعے کویاد کریںجہاں ایک بزرگ پر حملہ کیا گیا اور لگاتار پیٹا گیامگر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ بہرائچ کی صورتحال اور میڈیا کا کردار آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس مشکل ماحول میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
مولانا محمود مدنی کے مطابق ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو مایوسی سے بچائیں۔ اگر ہم بھی اسی جارحانہ لہجے اور طریقے کا سہارا لیں گے تو یہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہوگا ۔ اس اجلاس میںمشہور ماہر معاشیات پروفیسر ارون کمار ، سماجی مفکر وجے پرتاپ سنگھ، پرفیسر سوربھ باجپئی، معروف صحافی آدتیہ مینن، ڈاکٹر جاوید عالم خان کے علاوہ مولانا حکیم الدین قاسمی ،ڈاکٹر ظفر محمود، دیا سنگھ ، کیلاش مینا،پروفیسر مجیب الرحمٰن، صبا رحمان، مولانا نیاز احمد فاروقی، سیف علی ندوی، مولانا امین الحق اسامہ قاسمی، راکیش بھٹ، ڈاکٹر جاوید اقبال وانی، نکیتا چترویدی، خوشبو اختر، ایڈوکیٹ انوپم، شبھ مورتھی، پرشانت کمار اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ اس موقع پر اہانت ِ رسولؐکے خلاف صدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم بھی منظور کیا گیا جن پر سبھی لوگوں نے دستخط کئے۔ اس میمورنڈم میں صدر جمہوریۂ ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک کی سربراہ کی حیثیت سے اس معاملے میں مداخلت کریں۔