• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بھیونڈی کے اُردو اسکول میں مراٹھی تقریری مقابلے کی ۵۱؍ سالہ منفرد روایت

Updated: December 27, 2024, 9:45 AM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

صمدیہ ہائی اسکول اینڈجونیئر کالج میںسالانہ مراٹھی تقریری مقابلہ گزشتہ ۵۰؍ سال سے منعقد ہورہا ہے جس میںاردوطلبہ نہ صرف مسلسل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں بلکہ انعامات بھی حاصل کررہے ہیں

These are from previous years` Marathi speech competitions.
سابقہ برسوں کےمراٹھی تقریری مقابلوں کی ہیں

بھیونڈی : عام خیال یہ ہےکہ حیدر آباد کا مسلمان تیلگو بول لیتا ہے،تمل ناڈو کا مسلمان تمل زبان جانتا ہے ، بنگال کا مسلمان بنگالی زبان سے واقف ہے لیکن مہاراشٹر کامسلمان سوائےکوکنی مسلمانوں کے، مراٹھی سےواقفیت نہیںرکھتا۔ اس میں استثناء ہوسکتا ہےلیکن عام تاثر یہی ہے کہ اردو بولنے والے مراٹھی نہیںبول نہیں پاتے، بھلے ہی سمجھ لیتےہوں۔ پرانی نسل کو اب مراٹھی کی طرف راغب نہیںکیا جاسکتا لیکن طلبہ میں یہ رجحان پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹرکے مسلمانوںبالخصوص اردو میڈیم کے طلبہ کو مراٹھی سے واقف کرانے اور اسے اپنانے پرآمادہ کرنے کے  اسی مقصدکے تحت آج سے۵۰؍ سال قبل بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام صمدیہ ہا ئی اسکول (اب جونیئر کالج بھی ہے) میں اپنی نوعیت کا منفرد انٹر اسکول مراٹھی تقریری مقابلے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ یہ سفراب بھی جاری ہے جس کا ۵۱؍ واں ایڈیشن ۱۹؍ دسمبر کواسکول کے احاطہ میں منعقد کیا گیا جس کی رپورٹ گزشتہ روزشائع ہوئی۔
 صمدیہ ہائی اسکول  کے سبکدوش معلم محمد رشید شیخ (رشید سر) نے سالانہ مراٹھی تقریری مقابلے کے بارے میںبتایا کہ ’’ یہ مقابلہ ہر سال کامیابی سے منعقد ہوتا آیا ہے۔ بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی  کے روح رواں یوسف حسن اور شریف حسن مومن کی کاوشوںسے اس کے خدوخال طے کئے گئے تھے۔ان دونوں حضرات نے ہم سے کہا تھا کہ اسکول کی بہتری کیلئے جو ہوسکتا ہے وہ کرو ۔ دوسرے اسکولوں میں جاکر دیکھو کہ کس طرح پروگرام ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نےاس وقت تھانے کے مراٹھی اسکولوں کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے تقریری مقابلوں کو قریب سے دیکھا اور سمجھا  اور پھر ایسے  ہی مقابلے ہمارے اردو اسکول میں یہاں کے ماحول کے مطابق منعقد کرنے کی جسارت کی۔ اللہ کاشکر ہےکہ ہم اس میں کامیاب  ہیں اور آج یہ کہہ سکتے ہیںکہ جس طرح رئیس ہائی اسکول میں سالانہ اردو تقریری مقابلہ ہوتا ہے اسی طرح ہمارے صمدیہ اسکول میں مراٹھی تقریری مقابلہ ہوتا ہے۔‘‘ رشید سر نے، جو اس مقابلےکے انعقاد و اہتمام میں برسوں سرگرم رہے، مزیدبتایا کہ ’’ تقریری مقابلے کیلئے اردو کے طلبہ کو تیار کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ اتنا ہی مشکل  انہیںمراٹھی تقریر ازبرکرانا ہوتا تھا۔ کئی طلبہ کو ہم یہ بھی کہتے تھے کہ اگر یاد نہیںکرسکتے تو لکھا ہوا دیکھ کر پڑھ لو لیکن مقابلے میںحصہ ضرور لو۔ بہر حا ل طلبہ ماضی میں بھی حصہ لیتے تھے اور اب بھی لے رہے ہیںاور قابل ذکر ہے کہ اردو  طلبہ نے انعامات بھی حاصل کئے۔‘‘  اس نمائندہ کے سوال پر کہ مراٹھی کے تعلق سے اردو طلبہ میں کتنی بیداری آ رہی ہے، رشید سر نے بتایا کہ ’’ اب پہلے سے کافی بیداری آئی ہے کیونکہ اب لوگ اس تعلق سے سنجیدہ ہو رہے ہیں کہ مراٹھی ریاست کی سرکاری زبان ہے، کارپوریشن اور میونسپلٹیوں کے تمام کام  مراٹھی میں ہوتے ہیں، کوئی بھی سرٹیفکیٹ بنانا ہو تو  مراٹھی  میں درخواست دینی ہوتی ہے  یا فارم بھرنا پڑتا ہے، اس لئے والدین اور طلبہ مراٹھی کی اہمیت سے واقف ہونے لگے ہیں اور ان میں مراٹھی سے دلچسپی پیدا ہورہی ہے۔ اب جو طلبہ مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں، ان میں مراٹھی کا تلفظ بھی بہتر ہورہا ہے اور سامعین کی شرکت بھی بڑھ رہی ہے۔‘‘ 
 یہ پوچھنے پر کہ کیا اردو میڈیم کے چند طلبہ کے نام یاد ہیں جنہوں  نے  انعام جیتا تھا،  انہوں نے بتایا کہ ’’ایک نام الطاف مقری کا ہے جو چند مقابلوں میں فاتح رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بار مراٹھی اسکولوں کے درمیان صرف ایک اردو اسکول شادآدم شیخ ہائی اسکول کے طالبعلم نے  انعام جیتا تھا۔ یہ کسی اردو اسکول کی پہلی کامیابی تھی۔‘‘ عنوانات کےتعلق سے رشید سرنے بتایا کہ عام طورپرتعلیمی ،  سیاسی اور سماجی موضوعات پر تقاریر کی دعوت دی جاتی تھی۔  یہ اسکول کا اسٹاف مل کر طےکرتا تھا مثلاً ’ دام کری کام ‘(رشوت سے کام ہوتا ہے) اور’سرکاری کام، آٹھ دِوَس تھانب ‘ (سرکاری کام ہے تو آٹھ دن رُک جا!)، ایسے عنوانات دئیے جا چکے ہیں۔
 صمدیہ ہائی اسکول کے صدر مدرس ساجد صدیقی نے اس مقابلے کی بابت بتایا کہ ’’نصف صدی سے جاری بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی  سے کئی کارہائے نمایاں منسوب ہیں مگر ان میں  اسی سوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والے ادارے صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے ذریعے منعقد ہونے والا مراٹھی تقریری مقابلہ خاص ہے۔ سوسائٹی کے بانیوں نے ۵۰؍ سال قبل مراٹھی تقریری مقابلے کی داغ بیل ڈالی تھی جن میں ہمارے بزرگوار شریف حسن رمضان مومن، مرحوم یوسف حسن مومن اور دیگر قابل احترام اراکین کی کاوشیں شامل ہیں۔ تب سے لے کر اب تک،  اپنی نوعیت کا یہ منفرد مقابلہ جاری ہے۔‘‘ساجد صدیقی کے مطابق یہ منفرد اس لیے ہے کہ صمدیہ اردو تعلیمی ادارہ ہے اوراس کے ذریعے ایسے منفرد مقابلے کا انعقاد باقاعدگی سے کیا جارہا  ہے اور گمان غالب ہے کہ پوری ریاست  میں کسی اُردو میڈیم اسکول کے ذریعہ مراٹھی تقریری مقابلے  کے انعقاد کا شرف صرف اسی اسکول کو حاصل ہے۔‘‘ بقول ساجد صدیقی: ’’ اس کا مقصد غیر مراٹھی بالخصوص اُردو طلبہ میں ہماری ریاستی زبان مراٹھی سے دلچسپی اور وابستگی پیدا کرنا ہے۔ اردواسٹوڈنٹس عام طورپر مراٹھی میں کمزور ہوتے ہیں چنانچہ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہےکہ اردو طلبہ اس زبان کو سیکھیں، مراٹھی تہذیب و ثقافت کو جانیں  اور بھائی چارگی اور قومی یکجہتی کی فضا بنانے میں تعاون کریں ۔‘‘
 سابق طالبعلم  الطاف مقری نے اس نمائندہ سے گفتگو کے د وران بتایا کہ وہ تین چار سال تک اس مقابلے میں حصہ لیتے رہے۔ یہ پوچھنے پر کہ مقابلے کے تعلق سے کوئی خاص بات ذہن میں ہے، انہوں نے بتایا کہ ’’ ۱۹۸۴ء میںجب مَیں شریک ِ مقابلہ تھا، مجھےاول انعام ملا تھا۔ اُس وقت ایک خاتون جج تھیں جن کا نا م اس وقت ذہن میں نہیںہے، وہ میری تقریر سے از حد  متاثر ہوئیں اور کہا کہ آئندہ سال مَیں تمہاری تقریر لکھوں گی۔ اپنا وعدہ انہوں نے پورا کیا،  اس کے  اگلے سال یعنی ۱۹۸۵ء میں انہوں نے مجھے تقریر لکھ کر دی اوراُس سال بھی مجھے انعام کا مستحق قراردیا گیا۔‘‘
 اسکول ہذا کے سینئرٹیچر ذوالفقار الدین نے مراٹھی اور اردو میڈیم کے طلبہ کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ ہمارے طلبہ کو تیار کرنے میںکافی محنت کرنی پڑتی  ہے، خاص طور پر تلفظ پر کافی توجہ دینی پڑتی ہے۔ مثلاً مراٹھی طالبعلم لفظ  ’پرََکاش ‘(پ اور ر دونوں پر زبر)  ادا کرتا ہے جبکہ اردو طالبعلم ’ پر کاش‘ (ر پر جزم) پڑھتا ہے، بہر حال اب اردو طلبہ بھی کافی بہتر کررہے ہیں۔  مقابلے میںسب سے زیادہ نمبر لینے والے غیر مراٹھی طلبہ کواسکول کی جانب سے ’مومن ویلفیئر ٹرافی‘ سے نوازا جاتا ہے۔ اس سال ۳۰؍ اسکول شریک رہے۔  ہر سال عمومی طورپر۳۰؍ ، ۳۲؍، ۳۴؍ اسکول شرکت کرتے ہیں۔‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK