• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسجد کےخلاف کارروائی مہنگی پڑی، یوگی سرکار کو نوٹس

Updated: February 17, 2025, 11:24 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے کشی نگرکی مدینہ مسجد کے مزید انہدام پر روک لگادی، رہنما خطوط کی پاسداری نہ کرنے پر جواب مانگا، پوچھاکہ ’’توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے؟‘‘

A portion of the Madani Masjid in Kushinagar was bulldozed in a very hasty manner on Sunday, February 9th.
کشی نگر کی مدنی مسجد جس کے ایک حصہ پر انتہائی جلد بازی میں اتوار ۹؍ فروری کو بلڈوزر چلا دیاگیا۔

کشی نگر میں نوٹس دیئے بغیر مدنی مسجد پر  بلڈوزر چلا کر اسکے ایک حصے کو  منہدم کردینے کے معاملے میں  سپریم کورٹ نے سخت رویہ اختیار کرتےہوئے یوگی سرکار سے سوال کیا ہے کہ اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ شروع کی جائے؟ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے ریاستی حکومت کو آئندہ حکم تک مدینہ مسجد  کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کا حکم دیا ہے۔ 
 جسٹس بی آر گوَئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے یہ فیصلہ مسجد انتظامیہ کی پٹیشن پر سنایا جس میں الزام عائد کیاگیا ہے کہ یوگی حکومت نے بغیر کوئی نوٹس دیئے بغیر مسجد کا انہدام کرکے  جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔  سپریم کورٹ نے   بلڈوزر راج   پر روک لگانے کیلئے  سنائے گئے اپنے مذکورہ فیصلے میں  واضح کیا ہے کہ کوئی بھی انہدامی کارروائی اپنے دفاع کا موقع دیئے بغیر نہیں کی جاسکتی اس لئے بلڈوزر ایکشن ۱۵؍ دن کے پیشگی نوٹس کے بغیر نہیںکیا جاسکتا۔
 اس کے برخلاف  یوگی حکومت نے ۹؍ فروری کو اتوار کے دن صبح  صبح کشی نگر کے ہاٹا علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مقامی مرکز مدنی مسجد پر بلڈوزر چلادیا۔مسجد   انتظامیہ کا الزام ہے کہ نوٹس کے نام پر یہ ڈرامارچا گیا۔   بلڈوزر چلانےسے قبل دیوار پر نوٹس چسپاں کیاگیا، تصویر لی گئی اور پھر اسے نکال کر انہدامی کارروائی شروع کردی گئی۔ ۹؍ فروری کو انہدام کے وقت یہ دعویٰ کیاگیا کہ مسجد سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنی ہوئی ہے جبکہ دوسرے دن کہاگیا کہ تعمیر پاس کرائے گئے نقشہ  کے برخلاف ہورہی تھی  اور جتنے حصے کا نقشہ پاس نہیں کرایاگیا وہ منہدم کردیاگیا ہے۔ 
 یوگی سرکارکی اس من مانی  کو سپریم کورٹ  میں چیلنج کیاگیاہے۔  اس پر پیر کو سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی اور اے جی مسیح نے مزید  کسی انہدامی کارروائی  پر فوری روک لگاتے ہوئے   جن افسران نے  ۹؍ فروری کو انہدامی کارروائی کو انجام دیا ہےان کے تعلق سے جواب طلب کیا ہے کہ ان  کے خلاف عدالت کی حکم عدولی کی کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ ا نہدامی کارروائی کی قیادت ضلع مجسٹریٹ اور سرکل آفیسر کر رہے تھے۔ 
  سینئر وکیل حذیفہ احمدی  جو مسجد کمیٹی کی پیروی کر رہے تھے،نے انہدامی کارروائی کو سپریم کورٹ کے ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کے حکم کی ’’سنگین  خلاف ورزی ‘‘  قرار دیا اورکہا کہ ’’ اب تک انہدامی کارروائی کے تعلق سے کوئی نوٹس نہیں  دیا گیا۔‘‘ انہوں  نے عدالت کی توجہ انہدام کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ’’آپ دیکھیں کہ کس طرح انہدام کیا گیا ہے۔‘‘ حذیفہ احمدی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مسجد عرضی گزارکی ذاتی زمین پر بنائی گئی  ہے اورا س کیلئے میونسپل حکام سے تمام ضروری منظوریاں  حاصل کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتہائی جلد بازی میں‘‘ کی گئی انہدامی کارروائی پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں    کے مذہبی جذبات کا قطعی خیال نہیں رکھا گیا۔
 کورٹ نے پیر کو جاری کئے گئے حکم میں عرضی گزار کے ذریعہ پیش کئے گئے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا  کہ ’’یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ڈھانچے (مسجد)کی بات ہورہی ہے وہ عرضی گزار کی نجی زمین پر تھا۔تعمیراتی کام بھی ۱۹۹۹ء کے قانون کی رو سے میونسپل حکام سے اجازت لے کر کیا گیاتھا۔ عرضی گزار نے یہ بھی بتایاہے کہ تعمیراتی کام کی اجازت منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ہائی کورٹ  نے راحت دیتے ہوئے ۱۲؍ فروری ۲۰۰۶ء کے اپنے حکم میں اس منسوخی  پر روک لگا دی تھی۔اس طرح  تعمیراتی کام کی اجازت کا معاملہ غیر واضح ہے۔‘‘ 
 سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میںکہاہے کہ ’’(مسجد کی تعمیر کے خلاف )شکایت کی بنیاد پرایس ڈی ایم نے معاملے کی جانچ  کی اور ۱۲؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو میڈیا کیلئے  بیان جا ری کیا تھا۔ جانچ میں تعمیراتی کام منظور شدہ نقشہ کے مطابق پایا گیا اور جس  حصے میں تعمیرکی اجازت نہیں ملی تھی  اسے عرضی گزار نے خود ہی  منہدم کردیاتھا۔‘‘ اس بنیاد پر کورٹ نے کہا کہ ’’ اِس عدالت کے  احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو انہدامی کارروائی کی گئی ہے اس   کے تعلق سے نوٹس جاری کیا جائے کہ ہتک عزت کا مقدمہ کیوں نہ چلایا جائے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK