• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اڈانی گروپ ایک بار پھر سیبی کے رڈار پر

Updated: November 23, 2024, 3:40 PM IST | Agency | Mumbai

سیبی اس بات کی تحقیقات کررہا ہے کہ اڈانی گروپ نے اسے معاملے کی اطلاع دینے کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔

Gautam Adani is surrounded by problems. Photo: INN
گوتم اڈانی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

گوتم اڈانی کا اڈانی گروپ ایک بار پھر کیپٹل مارکیٹ ریگولیٹرسیبی   کے نشانے پر  ہے۔ سیبی  اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا اڈانی گروپ نے مارکیٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع ہونے کیلئے  لازمی قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔
 سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے اسٹاک ایکسچینج کے حکام سے پوچھا ہے کہ کیا اڈانی گرین انرجی لمیٹڈ رشوت خوری کے الزامات کے بارے میں امریکی محکمۂ انصاف کی تحقیقات کو مناسب طور پر ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔  ذرائع نے کہا کہ حقائق تلاش کرنے کا عمل دو ہفتوں تک جاری رہنے کی امید ہے، جس کے بعد سیبی  یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا وہ باضابطہ تحقیقات شروع کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ سیبی  نے پہلے بھی  اطلاع دینے کے اصولوں جیسے مسائل کیلئے  اڈانی گروپ کی تحقیقات کی ہیں  تاہم  نتائج ابھی تک ظاہر نہیں کئے  گئے ہیں۔بلومبرگ نے ۱۵؍ مارچ کو اپنی رپورٹ کہا  تھا کہ امریکی استغاثہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اڈانی کے ارب پتی چیئرمین سمیت کسی بھی ادارے یا افراد نے توانائی کے منصوبے پر ہندوستان کے حکام سے  اچھے رویہ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد  ۱۹؍مارچ کو اسٹاک ایکسچینج کو ایک فائلنگ میں  اڈانی گرین نے کہا کہ وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ امریکی انسداد بدعنوانی کے قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کیلئے کسی غیر متعلقہ تیسرے فریق سے اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
  ۲۱؍ نومبر کو خبر آئی تھی کہ امریکی پراسیکیوٹرس نے الزام لگایا ہے کہ گوتم اڈانی شمسی توانائی کے ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے ۲۵۰؍ملین ڈالرس سے زیادہ کی رشوت دینے کی سازش میں ملوث ہیں۔  ہندوستان کے سرکاری اہلکاروں سے رشوت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ساگر آراڈانی ، اڈانی گرین انرجی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر  اوراڈانی کے ایم ڈی اور سی ای او ونیت ایس جین پر امریکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا بھی الزام ہے۔
  اس معاملے پر اپنے ردعمل میں اڈانی گروپ نے امریکی محکمہ انصاف اور امریکی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے اڈانی گرین کے ڈائریکٹرس کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ تمام ممکنہ قانونی اقدامات کئے جائیں گے۔ اڈانی گروپ نے کہا کہ گروپ اپنے اسٹیک ہولڈرس، شراکت داروں اور ملازمین کو یقین دلاتا ہے کہ یہ ایک قانون کی پاسداری کرنے والی تنظیم ہے۔ اپنے الزامات میں امریکی استغاثہ نے دلیل  پیش کی ہے کہ اڈانی کا مارچ میں بلومبرگ کے ذریعہ لگائے جانے والے الزامات سے  انکار غلط بیان تھا۔ اس کا مقصد مبینہ  فریب دہی کو آگے بڑھانا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ گوتم اڈانی کے بھتیجے ساگر اڈانی کو ایک سال قبل گرینڈ جیوری سے سمن اور تلاشی وارنٹ موصول ہوئے تھے۔

امریکی الزامات کے بعد اڈانی گروپ کو فنڈنگ کی کمی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے 
امریکی حکام کی جانب سے گوتم اڈانی کے خلاف الزامات کے بعد اڈانی گروپ کو فنڈنگ ​​کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کریڈٹ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ بینک اڈانی گروپ کو نئے قرض دینے پر عارضی پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔اڈانی گروپ کے بونڈس میں جمعہ کو مسلسل دوسرے دن زبردست گراوٹ درج کی گئی  تاہم جمعرات کی شدید گراوٹ کے بعد کچھ اسٹاکس میں استحکام دیکھا گیا۔ ذرائع کے مطابق کچھ بین الاقوامی بینک اڈانی گروپ کو نئے قرض دینے پر عارضی پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں تاہم بینک موجودہ قرضوں کو جاری رکھیں گے۔
  اڈانی کے بین الاقوامی قرض دینے والے بینکوں کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ انہوں نے اپنے اداروں کے اندر کئی بات چیت کی ہے۔ بحث اس بات پر ہے کہ اس کیس کا اڈانی گروپ کی مالی حالت پر کیا اثر پڑے گا۔
 ریسرچ فرم کریڈٹ سائٹس  نے کہا ہے کہ ری فنانسنگ اڈانی گروپ کے گرین انرجی کاروبار کیلئے  سب سے بڑی تشویش ہے، جو ان الزامات کے مرکز میں ہے۔ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے خبردار کیا ہے کہ گروپ کو اپنے بڑے توسیعی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے  ایکویٹی اور قرض کی منڈیوں تک باقاعدہ رسائی کی ضرورت ہوگی۔ تاہم موجودہ صورتحال میں سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور پڑ سکتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستانی اور کچھ بین الاقوامی بینک اور بونڈ سرمایہ کار اڈانی گروپ کو ایک واحد ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ گروپ میں اپنے عمل دخل کو محدود کرنے کیلئے  اقدامات کر سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK