• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عمر ۱۷؍ سال، ۱۲؍ ویں کا امتحان دیا، ۳؍ سال سے تروایح سنا رہے ہیں

Updated: March 18, 2024, 11:32 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

حافظ محمد رفیع ایسے نوجوان ہیں جو اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں، تضیع اوقات سے بچتے ہیں اور وقت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔

Hafiz Muhammad Rafi Mahmood Ansari. Photo: INN
حافظ محمد رفیع محمود انصاری۔ تصویر : آئی این این

ملئے ۱۷؍ سالہ حافظ قرآن سے جنہوں نے اسی سال سائنس سے بارہویں بورڈ کاامتحان دیا ہے اور کیمیکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ محمد رفیع کو دسویں بورڈ کا سرٹیفکیٹ اور حفظ قرآن کی سند ایک ہی سال میں ملی۔ اپنے خاندان میں پہلے حافظ ہیں اور وقت کے صحیح استعمال کو خود پر لازم کرلیا ہے اس لئے اسمارٹ فون استعمال نہیں کرتے اور عصری تعلیم اور قرآن کا دور جاری رکھتے ہوئے ۳؍ برس کا علیٰحدہ ’اَپرینٹس شپ کورس‘ کررہے ہیں جو اس سال مکمل ہوجائے گا۔ حافظ محمد رفیع محمود انصاری سے گفتگو کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ آج کے اس پُر فتن دور میں مسلمان قوم کو ایسے نوجوانوںکی سخت ضرورت ہے جو تضیع اوقات کو پسند نہیں کرتے اور دین اور دنیا کے ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ممبئی کے فارس روڈ پر واقع منگلی کندوری میں  رہائش پزیر محمد رفیع کے چھوٹے بھائی شفیع کا کم عمری میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور کمسن ہونے کے باوجود شفیع کا قرآن پڑھنے کی طرف کافی رجحان تھا۔ گھر میں دینی ماحول ہے اور والدین چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بچہ حافظ بنے اس لئے بھائی کے انتقال کے بعد محمد رفیع نے فیصلہ کیا کہ وہ قرآن حفظ کریں گے۔
 حافظ رفیع کا کہنا ہے کہ ’’والدین کی فکر، استاد کی ذمہ داری اور خود بچے کا شوق جب ساتھ ہوتا ہے تب کہیں جاکر ایک حافظ تیار ہوتا ہے۔‘‘  ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت رہے کہ انہیں یہ سب کچھ میسر تھا جس کی وجہ سے مناسب مدت میں قرآن کریم حفظ کرنا ممکن ہوسکا۔ ان کے مطابق بیلاسس روڈ پر ساحل ہوٹل کے پیچھے واقع دینیات مکتب دودھ والا کمپلیکس سے انہیں قرآن کریم کی بنیادی تعلیم بہت اچھے انداز میں ملی جس کی وجہ سے قرآن کریم کو یاد کرنا آسان ہوگیا تھا۔ انہوں نے حفظ اسی جگہ سے مکمل کیا۔
 ابتدائی تعلیم مدنپورہ میں انجمن خیر الاسلام سے حاصل کرنے کے بعد حافظ رفیع نے ۸؍ویں جماعت سے محمد حاجی صابو صدیق ٹیکنیکل ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا اور اسی سال جولائی ۲۰۱۹ء میں قرآن شریف حفظ کرنا شروع کیا اور جب تک ۱۲؍ پارے حفظ کئے تب تک کورونا وباء کی وجہ سے لاک ڈائون لگ گیا اور سارے مکتب بند ہوگئے۔ اس وقت جتنا سبق یاد کرچکے تھے اسی کا دور کرتے رہے۔ جب کچھ عرصہ بعد مکتب شروع ہوئے تو چند مہینوں کے ناغہ کی وجہ سے حفظ کی دوبارہ ابتداء اس طرح ہوئی کہ جتنے پارے پہلے پڑھ چکے تھے اسے شروع سے دوبارہ سنایا گیا پھر نیا سبق شروع ہوا۔ 
 البتہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ لاک ڈائون لگ گیا لیکن اس مرتبہ آن لائن طریقہ سے قرآن کے حفظ کا نظم بھی جاری رہا۔ انہوں نے ۱۰؍ ویں کا بورڈ کا امتحان ۸۰؍ فیصد مارکس سے پاس کیا اور اسی سال حفظ قرآن کی سند بھی حاصل کی۔
 حافظ رفیع بتاتے ہیں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے انہیں یہ فائدہ ہوا کہ مصلیٰ پر کھڑے ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ اس دوران فرض نمازوں میں امامت کے علاوہ دیگر حفاظ کے ساتھ تراویح میں قرآن سنانے کا بھی موقع ملا جس سے خود اعتمادی آگئی اور اب گزشتہ ۳؍ برسوں سے لگاتار ایک مقامی کارخانہ میں تراویح میں قرآن کریم سنا رہے ہیں۔ دن میں وقت نکال کر دور کرلیتے ہیں اور مغرب بعد والدین یا کسی سرپرست کو قرآن سنا کر تراویح پڑھانے جاتے ہیں۔
 حفظ قرآن اور عصری تعلیم ایک ساتھ حاصل کرنے کے تعلق سے انہوں نے ایک تجربہ یہ بیان کیا کہ ان کے ایک ساتھی نے ۲۴؍ پارے حفظ کرلئے تھے لیکن کالج میں جانے کے بعد پڑھائی میں اضافہ، طرز زندگی اور سوچ میں تبدیلی وغیرہ کی وجہ سے اس نے حفظ مکمل نہیں کیا اس لئے وہ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ اگر کسی نے حفظ شروع کیا ہے تو کالج جانے سے پہلے مکمل کرلے تو اچھا ہوگا۔
 حافظ رفیع کی ایک خوبی یہ بھی رہی کہ ایس ایس سی بورڈ کا امتحان دینے کے بعد انہوں نے اپنے چچا انصار شیخ کی رہبری میں مجگائوں ڈاک پر ۳؍ سال کا ’اسٹرکچرل فٹر کورس‘ اپرینٹس شپ میں شروع کردیا۔ یہ کورس اسی سال مکمل ہوگاجبکہ یہ کورس ان کی سائنس کی پڑھائی سے علیٰحدہ ہے۔ علیٰحدہ کورس کی ترغیب ملنے کے تعلق سے انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا ایک انٹرویو دیکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ۱۱؍ ویں اور ۱۲؍ ویں کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے طلبہ کو ایک سال کا کوئی نہ کوئی کورس کرلینا چاہئے اور گریجویشن کیلئے آگے کے ۳؍ برسوں کی پڑھائی کے دوران الگ سے ۲؍ سال کا کوئی کورس کرلینا چاہئے۔
 حافظ رفیع کا کہنا ہیکہ ’’آج کے نوجوانوں کو قوم کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے اور کسی نہ کسی صورت میں قوم کی خدمت انجام دینا چاہئے۔ ہماری تعلیمی حالت افسوسناک ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میںہے پیچھے، جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا‘‘۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK