Updated: February 06, 2024, 6:49 PM IST
| Ajmer
مہارانا پرتاپ سینا نامی ایک ہندو تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر، راجستھان میں واقع خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ، ایک مندر ہے۔ اس کی دیواروں اور کھڑکیوں پر ہندو نشانات ہیں۔ دوسری جانب درگاہ کمیٹی نے ان تمام دعوؤں کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ ہندو تنظم اس ضمن میں ۹؍ فروری کو ایک مارچ نکالنے والی ہے۔ ریاستی اور علاقائی حکام عوام کو امن و امان برقرار رکھنے اور کسی بھی افواہ پر کان نہ دھرنے کی اپیل کررہے ہیں۔
درگاہ غریب نوازؒ۔ تصویر: آئی این این
ایک ہندو تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ ۱۳؍ ویں صدی کی درگاہ کی دیواروں اور کھڑکیوں پر ہندو نشانات موجود ہیں اور اس سے قبل انہوں نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے احاطے کے سروے کا مطالبہ کیا تھا۔مہارانا پرتاپ سینا، ایک ہندو تنظیم ہے جس نے ۹؍ فروری ۲۰۲۴ء کو ایک مارچ کا شیڈول بنایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ راجستھان میں تاریخی اجمیر درگاہ ایک ہندو مندر ہے۔ مبینہ طور پر اس مارچ کا اہتمام مذکورہ دعوے پر زور دینے کیلئے کیا گیا ہے جس سے خطے میں ممکنہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کیلئے وقف مزار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت کے طور پر کھڑا ہے جو لاکھوں عقیدت مندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، جو اپنے مذہب سے قطع نظر وہاں عبادت کرتے ہیں۔ دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق اجمیر کی درگاہ ۱۳؍ ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ اب تک متعدد مرتبہ اس کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔
حالیہ برسوں میں بعض ہندو شدت پسند مسلمانوں کے ہر مذہبی مقام پر ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ یہی کچھ انہوں نے اجمیر کی درگاہ کے معاملے بھی کیا ہے اور دعویٰ کررہے ہیں کہ درگاہ درحقیقت ایک مندر تھا۔ مہارانا پرتاپ سینا کے سربراہ راج وردھن سنگھ پرمار نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا کہ درگاہ کی دیواروں اور کھڑکیوں پر ہندو علامتیں موجود تھیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے راجستھان کے وزیر اعلیٰ بھجن لال شرما کو لکھے خط میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے احاطے کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ وارانسی کی عدالت کے حکم کے بعد سروے کی اجازت دینے کے بعد آیا ہے جس میں مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی گئی۔
خط میں وزیر اعلیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ `ضروری ہدایات جاری کریں اور اجمیر میں واقع درگاہ کی تحقیقات کروائیں، جیسا کہ بابری مسجد اور گین واپی میں تحقیقات کی گئی ہیں۔
وہیں، ایک ویڈیو میں پرمار یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ ان کی تنظیم نے پہلے یہ بات راجستھان میں اشوک گہلوت کی قیادت والی کانگریس حکومت کے نوٹس میں لائی تھی۔ تاہم، پچھلی حکومت کی طرف سے اس معاملے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی، اور اس لئے انہوں نے موجودہ وزیر اعلیٰ بھجن لال سے اس معاملے میں کارروائی کی اپیل کی ہے۔
اس سے قبل کئے گئے اس طرح کے دعوؤں کے جواب میں انجمن سید زادگان کے صدر معین چشتی نے کہا تھا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کیونکہ درگاہ میں ایسی کوئی علامت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال لاکھوں ہندو اور مسلمان اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں۔ مہارانا پرتاپ سینا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ زیر بحث مقام ابتدائی طور پر ایک ہندو مندر تھا جو ایک قابل احترام دیوتا کیلئے وقف تھا۔ ان کا استدلال ہے کہ تاریخی متون اور آثار قدیمہ کی دریافتوں کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے، یہ ایک مخصوص تاریخی دور کے دوران ایک مسلم مزار میں تبدیل ہوا۔ بہر حال، مرکزی دھارے کا تاریخی اتفاق رائے ان کے دعوؤں سے متصادم ہے۔
درگاہ کمیٹی درگاہ خواجہ صاحب اجمیر نے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ درگاہ صدیوں سے اتحاد اور روحانیت کی علامت رہی ہے۔کمیٹی کے چیئرمین امین پٹھان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مہارانا پرتاپ سینا کے دعوے درست نہیں ہیں کیونکہ درگاہ کے اندر کوئی آرٹ ورک یا نشان نہیں ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ’’درگاہ ایک مقدس جگہ ہے جس پر تمام مذاہب کے لوگوں کا عقیدہ ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کی شبیہ خراب کرنے کیلئے ایسی گمراہ کن باتیں کہی جارہی ہیں جو ایک سازش ہے۔ میں حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو یہ جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ یہ درگاہ طویل عرصے سے ہندوستان کے بھرپور ثقافتی اور مذہبی تنوع میں اضافے کے طور پر کھڑی ہے۔ حالیہ دعوے کو درگاہ کے ارد گرد قائم تاریخی اور ثقافتی بیانیہ کیلئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اجمیر درگاہ کے متولیوں اور نمائندوں کا استدلال ہے کہ مزار کے ارد گرد بیانیہ کو تبدیل کرنے کی کوششیں گمراہ کن ہیں اور اس کے ملک کے سماجی تانے بانے پر دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ماضی میں اسی طرح کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ اس صورت حال کا نتیجہ بلاشبہ ہندوستان کے بھرپور ثقافتی اور مذہبی ورثے کے بارے میں جاری گفتگو پر اثرات مرتب کرے گا۔
ہندو تنظیم کا بینر۔ تصویر: آئی این این
لہٰذا آج سے تین دن تک ہونے والے مارچ کی کڑی نگرانی کی جائے گی، اور حکام مجوزہ مارچ کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کیلئے فوری کارروائی کیلئے تیار ہیں۔اعلان کے بینر پر لکھا ہے، `اجمیر درگاہ نہیں، ہمارا ہندو مندر ہے۔ مزید برآں، مارچ کے اعلان نے مذہبی لیڈروں، علمائے کرام اور مقامی حکام سمیت لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ یہ دعوے اور عوامی مظاہرے خطے میں کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں اور فرقہ وارانہ انتشار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ان خدشات کے جواب میں، حکام نے امن کو یقینی بنانے اور کسی بھی ممکنہ فرقہ وارانہ یا سیاسی ہلچل کو روکنے کیلئے سیکوریٹی فورسیز کو تعینات کیا ہے۔حکام عوام سے امن و امان برقرار رکھنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔