جسٹس روہت رنجن اگروال نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کی اپیل کو بغیر کسی سوال کے قبول کرلیا، مسجد فریق کی رائے بھی نہیں لی، ۱۰؍ مارچ کواگلی شنوائی۔
EPAPER
Updated: March 05, 2025, 1:32 PM IST | Agency | Allahabad
جسٹس روہت رنجن اگروال نے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کی اپیل کو بغیر کسی سوال کے قبول کرلیا، مسجد فریق کی رائے بھی نہیں لی، ۱۰؍ مارچ کواگلی شنوائی۔
الہ آباد ہائی کورٹ منگل کو ہندو فریق کے وکیل ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کی اپیل پر بغیر کسی استفسار کے سنبھل کی جامع مسجد کو ’’متنازع ڈھانچہ‘‘لکھنے پر راضی ہوگیا ۔ جسٹس روہت رنجن اگر وال نے فوری طور پر کورٹ کے اسٹینوں گرافر کو ہدایت دی کہ وہ مسجد کی جگہ ’’متنازع ڈھانچہ‘‘لفظ کا استعمال کریں۔ محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کے رنگ وروغن کی مخالفت کی ہے جس کو مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ منگل کو جسٹس روہت رنجن اگروال کی بنچ اسی پر شنوائی کررہی تھی۔ اس پر اگلی شنوائی اب ۱۰؍ مارچ کو ہوگی۔
منگل کو سماعت کے دوران محکمہ آثار قدیمہ کی اس رپورٹ پر کہ مسجد میں رنگ وروغن کی ضرورت نہیں ہے، مسجد کمیٹی نےاپنا اعتراض درج کرایا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کمیٹی کے اعتراض پر جواب دینے کیلئے وقت مانگا، جس کو عدالت نےقبول کرلیا۔ مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ مسجد کی صاف صفائی شروع ہو گئی ہے، لیکن نماز کیلئے سفیدی کی بھی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ سے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ خارج کرنے کا مطالبہ کیا اور نشاندہی کی کہ وہ نگراںہے، مالک نہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے مسجد میں رنگ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ‘‘ ہندو فریق کے وکیل ہری شنکر جین نے اس پر محکمہ آثار قدیمہ کی تائید کرتے ہوئے مسجد کمیٹی کے اس دعویٰ کو چیلنج کیا کہ ۱۹۲۷ء کے معاہدہ کی رو سے مسجد کے نظم ونسق کا اختیار اسے حاصل ہے۔ اسی دوران انہوں نے مسجد کو مسجد کہنے پر بھی اعتراض کیا اور اسے عدالت سے ’’متنازع ڈھانچہ ‘‘لکھنے کی گزارش کی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ڈھانچہ جس قانونی تنازع کو شکار ہوتو اسے حتمی فیصلہ آنے تک مسجد یا کچھ اور لکھنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے بابری مسجد-رام مندر تنازع کا حوالہ دیا جس پر ہائی کورٹ کے جج نے اسٹینو گرافر کو سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو ’’متنازع ڈھانچہ‘‘ لکھنے کی ہدایت جاری کردی۔