Updated: April 12, 2024, 5:43 PM IST
| New Delhi
الہ آباد ہائی کورٹ نے مذہبی تبدیلی کے حوالے سے ایک عرضی پر سماعت کے دوران کہا کہ یہ ظاہر کرنے کیلئے معتبر ثبوت کی ضرورت ہے کہ کسی انفرادی شخص نے اپنا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ رضاکارانہ طور پر لیا ہے۔مذہبی تبدیلی کو قانونی بنانے کیلئے صرف زبانی اور تحریری اعلان ہی کافی نہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این این
الہ آباد ہائی کورٹ نے مذہبی تبدیلی کے حوالے سے ایک عرضی پر سماعت کے دوران کہا کہ یہ ظاہر کرنے کیلئے معتبر ثبوت کی ضرورت ہے کہ کسی انفرادی شخص نے اپنا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ رضاکارانہ طور پر لیا ہے۔مذہبی تبدیلی کو قانونی بنانے کیلئے صرف زبانی اور تحریری اعلان ہی کافی نہیں۔
بار اور بینچ کے مطابق ہائی کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار نے کہا کہ ملک میں کسی بھی انفرادی شخص کو مذہبی تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ تاہم، کسی بھی شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ مذہبی تبدیلی کے تعلق سے واضح اقدامات کے ساتھ معتبر ثبوت پیش کرے۔
کمار کا یہ ردعمل ایک شخص کی عرضی پر سماعت کرنے کے دوران سامنے آیا ہے جس نے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون سے شادی کرنے کے بعد عدالت میں اپنے خلاف داخل کئے گئے کیس کو مسترد کرنے کی مانگ کی تھی۔ درخواست گزار نے اپنی اہلیہ کا مذہب تبدیل کروایا تھا۔
درخواست کنندہ کی اہلیہ کے والد نے درخواست گزار پر بیٹی کو اغواء کرنے ، دھمکیاں دینے اور عصمت دری کا الزام عائد کیا تھا۔ قبل ازیں عدالت نے درخواست کنندہ کو کہا تھا کہ وہ خاتون کی عمر معلوم کرنے کیلئے ان کا ہائی اسکول کا سرٹفکیٹ پیش کرے۔
پیر کو عدالت نے میڈیکل رپورٹ جمع کروانے کا نوٹس لیا تھا جس کے مطابق یہ واضح کیا گیا تھا کہ خاتون درخواست کنندہ سے شادی کے وقت کم عمر نہیں تھیں۔ ان کےو کیل نے بھی کہاتھا کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا مذہب تبدیل کیا ہے اور ان کی اوردرخواست کنندہ کی ایک اولاد بھی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مذہبی تبدیلی کے بارے میں متعلقہ سرکاری حکام کو مطلع کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کسی بھی فرد کے شناختی کارڈ اور کاغذات میں بھی واضح ہونا چاہئے۔ اس کیلئے حلف نامہ بھی لازمی ہے۔
باراور بینچ نے رپورٹ کیا ہے کہ عدالت نے کہا کہ اخبار میں اشتہار دیا جائے جس میں اس بات کی یقین دہانی کی جائے کہ اس تبدیلی کی وجہ سے کوئی بھی عوامی اختلاف نہیں ہے اور یہ تبدیلی دھوکہ دہی اور غیر قانونی طریقے سے نہ کی گئی ہو۔اخبار کے اشتہار میں نام، عمر اور پتہ جیسی تفصیلات بھی دی گئی ہوں۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ نوٹی فکیشن نیشنل گیزیٹ میں شائع ہونا چاہئے ، جو مرکزی حکومت کی جانب سے شائع ہونے والا آن لائن ریکارڈ ہے۔ اگر گیزیٹ ایپلی کیشن داخل کیا جاتاہے تو ڈپارٹمنٹ اس ایپلی کیشن کا درست جائزہ لے گا۔ ایک مرتبہ وہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ تمام چیزیں ترتیب سے ہیں، اس کے بعد مذہبی تبدیلی کے ایپلی کیشن کو گیزیٹ میں شائع کیا جائے گا۔
عدالت نے کہا کہ وہ اس بات کا بغور جائزہ لے گی کہ درخواست گزار کے معاملے میں مذہبی تبدیلی کافیصلہ رضاکارانہ طورپر لیا گیا ہے یا قانونی رکاوٹوں اور دیگر دباؤ پر قابو پانے کیلئے کیا گیا۔بعد ازیں عدالت نے معاملے کی سماعت کو ۶؍ مئی کیلئے ملتوی کیا ہے۔