آسام میں ۲۸؍ خاندانوں کے ایک ایک فرد کو غیر ملکی قرار دیا گیا، ٹربیونل نے یکطرفہ شنوائی کی اور اپنے دفاع کا موقع بھی نہیں دیا، جمعیۃ کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف۔
EPAPER
Updated: September 10, 2024, 10:40 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
آسام میں ۲۸؍ خاندانوں کے ایک ایک فرد کو غیر ملکی قرار دیا گیا، ٹربیونل نے یکطرفہ شنوائی کی اور اپنے دفاع کا موقع بھی نہیں دیا، جمعیۃ کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف۔
آسام میں گزشتہ دنوں ۲۸؍ مسلمانوں کو ڈٹینشن سینٹر بھیجنے کی خبر نے دہلا کر رکھ دیاتھا۔ اس کے ذریعہ قومی سطح پر یہ تاثر دیاگیا کہ وہ واقعی غیر ملکی اور بنگلہ دیشی شہری ہیں تاہم جمعیۃ علمائے ہند کی مقامی اکائی نے متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے جو رپورٹ اپنی مرکزی کمیٹی کو بھیجی ہے اس میں کئی انکشافات ہوئے ہیں۔ اول تو ۲۸؍ خاندانوں کے ۲۸؍ افراد یعنی ہر خاندان کے ایک فرد کو غیر ملکی قراردے کر ڈٹینشن سینٹر بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خاندان کے دیگر افراد کے ہندوستانی ہونے کو تسلیم کیاگیاہے۔ جنہیں ڈٹینشن سینٹر بھیجا گیا ہے،ان میں سے اکثر کے خلاف ٹربیونل نے ان کی غیر موجودگی میں سماعت کی،انہیں نوٹس جاری کیاگیا نہ صفائی پیش کرنے کا موقع دیاگیا،بس فیصلہ سنادیا گیا اور پھر ڈٹینشن سینٹر بھیج دیاگیا۔
نام میں معمولی غلطی کو جواز بنایا گیا
۴؍ ستمبر کو جن ۲۸؍ افراد کو ڈٹینشن سینٹر بھیجا گیاہے ان میں ۱۹؍ مرداور ۹؍ خواتین ہیں۔ جمعیۃ علماء کی رپورٹ کے مطابق جن مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیاگیا ،ان کےنام اور املاء میں غلطیاں تھیں اورچند کے ایک القاب بھی نام کے ساتھ غلط طور پر لکھے گئے تھے جبکہ ان ہی افراد کے اہل خانہ ہندوستانی ہیں۔ اس کے باوجود فارین ٹربیونل نےیکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں غیر ملکی قرار دے دیا۔ان میں سے ۱۲؍ افراد کواپنی صفائی کا موقع بھی نہیں دیاگیا۔ دیگر ۱۸؍ افراد وہ ہیں جو تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں قانونی معاملات کا کوئی علم نہیں۔ تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وکلاء نے ان مسلمانوں کی ٹھیک طرح سے رہنمائی نہیں کی۔
دستاویز درست پھر بھی غیر ملکی!
دستاویزات کے باوجود کس طرح سے ان مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ،اس کی مثال اس طرح دیکھی جاسکتی ہے کہ حراستی کیمپ میں موجودکتاب علی کے بیٹے گلزار علی نے اپنے دادا کا ۱۹۵۱ء کی ووٹر لسٹ میں نام کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اس نے اپنے والد کا پین کارڈ، زمین کے کاغذات اور این آر سی میں والد کا نام دکھایا ہے۔اس کے باوجود اسے غیر ملکی قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح ابراہیم نامی شخص کے بھائی نے ۱۹۶۶ء اور ۱۹۸۵ء کا ووٹر کارڈ،آدھار کارڈ اور راشن کارڈ بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ سراج الحق کے بیٹےنے ۱۹۷۱ء کے ووٹر لسٹ، زمین کے دستاویزات اور آدھار کارڈ کے ساتھ ووٹر آئی ڈی بھی دکھایا ہے۔ اس کے باوجود اسے غیر ملکی قرار دے دیا گیا۔ متاثرین سے ملاقات کرنے والی جمعیۃ علماء کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایاکہ ان مسلمانوں کے پاس سارے دستاویزات موجود ہیں، البتہ نام میں املاء اور القاب وغیرہ کی غلطیاں ہیں۔
غیر ملکی قراردیئے گئے غیر مسلموں کو شہریت دی گئی
دوسری طرف ریاست میں ۱۹۸۸ء میں جن غیر مسلم افراد کا غیر ملکی ہونا ثابت ہوگیا ہے،ان کے بارے میں ۵؍جولائی ۲۰۲۴ء کو نوٹیفکیشن جاری کرکے شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت انہیں شہریت فراہم کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرف ایسے مسلمان جن کے اہل خانہ ریاست کےقانونی باشندہ اور ہندوستانی شہری ہیں،انہیں کاغذات میں نام کی معمولی غلطی کی وجہ سے غیر ملکی قرار دیا گیا اور جو غیر ملکی ثابت ہوگئے ہیں مگر مسلمان نہیں ہیں ،ان کو شہریت دینے کافیصلہ کیا گیا۔
۲۸؍ خاندانوں میں سے ایک ایک فرد کا انتخاب
جمعیۃ علماء ہند آسام نے بتایا کہ پہلے مختلف علاقوں سے ان ۲۸؍ خاندانوں میں سے ایک ایک فرد کو تھانےمیں طلب کیا گیا اس کے بعد انہیں ایس پی آفس لے جاکر جبراً بس میں سوارکرکے حراستی کیمپ بھیج دیا گیا۔حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ان ۲۸؍افراد کے معاملوں کو فارین ٹربیونل میں بھیجا گیا اور کئی سماعتوں کے بعد انہیں غیرملکی قرار دیا گیاجبکہ آمسو اور ریاست کی دیگر تنظیموں نے سوال کیا ہےکہ جب ان افراد کے اہل خانہ ہندوستانی ہیں تو وہ غیر ملکی کیسے ہوسکتےہیں؟
ہر طرح کی قانونی مدد کی یقین دہانی
اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتےہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اسے قانون کا دوہرا پیمانہ قرار دیا۔ انہوں نے متاثرین کیلئے ہرممکن قانونی مدد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’قانونی عمل کو ایمانداری سے پوراکئے بغیر یکطرفہ فیصلہ سناکر کسی کی شہریت چھین لینا اورپھر اسے زبردستی حراستی کیمپ بھیج دینا غیر انسانی عمل اور شدید ظلم ہے،لیکن آسام میں اقتدار میں بی جے پی حکومت مسلم مخالف اقدامات میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔‘‘انہوںنے کہا کہ’’ ایک طرف ان غیر مسلمو ں کوشہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت دی جارہی ہے جو غیر ملکی ہیں اور دوسری طرف ملک کے شہریوں سے ان کی شہریت چھینی جارہی ہے۔ ‘‘ مولانا مدنی نے اس معاملہ میں آسام ہائی کورٹ سے رجوع کا اعلان کیا اور کہا کہ ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے گھر والے ہندوستانی ہوں،لیکن اس خاندان کے ایک فرد کو غیر ملکی قرار دے دیا جائے؟‘‘