• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شملہ میں مسجد کے نام پر ماحول بگاڑنے کی کوشش

Updated: September 06, 2024, 12:25 PM IST | Shimla

سنجولی میں چارمنزلہ مسجدکی مبینہ غیر قانونی تعمیر کے خلاف ہندوتوا تنظیموں کے کارکنان کا احتجاج، مسجد کے خلاف کانگریس ایم ایل اے اورریاستی وزیر انیرودھ سنگھ نے اسمبلی میں آواز اٹھائی، کانگریس کے ہی رکن اسمبلی ہریش جنارتھا نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے، اس کا فیصلہ سڑک پر نہیں ہونا چاہئے۔

Workers of Hindutva organizations protesting against the mosque in Shimla. Photo: PTI
شملہ میں مسجد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہندوتوا تنظیموں کے کارکنان۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ہماچل پردیش کی راجد ھانی شملہ میں مسجد کے نام پرماحول بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کانگریس کے رکن اسمبلی انیرودھ سنگھ مسجد کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کے خلاف سڑک پر ہونے والے احتجاج کی حمایت کررہے ہیںبلکہ انہوں نے ہی اسمبلی میںبھی یہ معاملہ اٹھایا تھا اور مسجد کے خلاف آوازاٹھائی تھی  ۔  اب یہ معاملہ سنگین ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ سنجولی علاقے میں جمعرات کو ہندوتوا تنظیموں کے کارکنان  نےبڑی تعداد میں جمع ہو کر مسجد کے خلاف احتجاج کیا ۔ مظاہرین نے بیرون ریاست سے ہماچل میں آکرغیر قانونی طورپرآباد ہونے والوں کے خلاف بھی آواز  اٹھائی ۔شملہ پولیس نے سنجولی چوک پر ہی مظاہرین کو روک دیا۔ شملہ پولیس کی طرف سےوہاں احتجاج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مظاہرین مسجد کے قریب احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن بعد میں انہیں دوبارہ ڈھلی ٹنل کی طرف بھیج دیا گیا اور یہیں ہندو تنظیموں نے مظاہرہ کیا۔
ہندوجاگرن منچ کی اشتعال انگیزی 
 ہندو جاگرن منچ کے سابق ریاستی صدر کمل گوتم نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ   ہماچل میں بیرون ریاست  سے بڑی تعداد میں لوگ رجسٹریشن کے بغیر آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہماچل پردیش مجرموں کا پناہ گاہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ۴؍ منزلہ غیر قانونی مسجد بنائی گئی اور انتظامیہ سب کچھ دیکھتا رہا ۔جس جگہ مسجد بنی ہے وہ ہماچل پردیش حکومت کی زمین ہے۔ خود حکومت بھی یہی کہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کوئی بورڈ نہیں ہے بلکہ یہ ایک لینڈ مافیا ہے ۔ کمل گوتم نے کہا کہ ہماچل پردیش کی مقدس سرزمین خطرے میں ہے۔ 
اسمبلی میں  معاملے پر بحث ، ریاستی وزیر کی شرانگیزی
اس سے قبل بدھ کو ہماچل اسمبلی میں اس پر بحث ہوئی۔قاعدہ۶۲؍ کے تحت ایوان میں پیش کئے گئے موضوع بحث کے دوران سکھو یندر سنگھ سکھو کی قیادت والی کانگریس حکومت کے کابینی وزیر انیرودھ سنگھ  نے مسجد کی غیر قانونی تعمیر کامعاملہ اٹھایا۔ دیہی ترقی اور پنچایتی راج کے وزیر انیرودھ سنگھ نے کہا کہ ہماچل میں اس طرح کا واقعہ پہلے نہیں ہوا تھا۔اب ہماچل میں ہر روز نئے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔ جماعت کے لوگ کہیں سے آرہے ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں۔ کیا یہ روہنگیا مسلمان ہیں؟ وزیر انیرودھ سنگھ نے مزید انکشاف کیا کہ وہ خود ایک یا دو لوگوں کو جانتے ہیں جو بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ ان لوگوں کی تصدیق ہونی چاہئے۔
رکن اسمبلی ہریش جنارتھا نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میںہے اسلئے اس کافیصلہ سڑک پر نہیں ہونا چاہئے۔ دیکھا جارہا ہے کہ ریاستی وزیر انیرودھ سنگھ  اور ایم ایل اے ہریش جنارتھا اس معاملے میں آمنے سامنے آگئے ہیں۔انیرودھ سنگھ مسجد کے خلاف ہندوتوا تنظیموںکے احتجاج کی حمایت کررہے ہیںجبکہ ہریش جنارتھا تحمل کی اپیل کررہے ہیں۔ اسمبلی  میںتحریک پیش کرتے ہوئے جنارتھا نے کہا کہ علاقے میں کوئی کشیدگی نہیں ہے اور وقف کی زمین پر اس مسجد کی تعمیر ۱۹۶۰ء میں ہوئی ہے،جبکہ ۲۰۱۰ء میں غیر قانونی طور پر ۳؍ منزلے تعمیر کئے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ نہ صرف مقامی بلکہ باہر سے آئے افراد بھی جس بیت الخلاء کا استعمال کرتے تھے وہ غیر قانونی تھا جسے منہدم کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کچھ لوگوں پر معاملے پر اشتعال انگیزی پھیلانے کا الزام بھی لگایا ہے۔
۶۳۵۷؍ مربع فٹ غیر قانونی تعمیرات کا الزام 
دیہی ترقی کے وزیر انیرودھ سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ اب تک۶؍ہزار۳۵۷؍ مربع فٹ غیر قانونی تعمیرات کی جا چکی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جو شخص کیس کی سماعت کیلئے آرہا تھا،۲۰۲۳ء  میں کارپوریشن کو پتہ چلا کہ اس کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیا کارپوریشن کے افسران نے اس کے کاغذات چیک نہیں کیے؟ اچانک ۲۰۲۳ء میں کارپوریشن کو احساس ہوا کہ جس شخص کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے وہ مدعا علیہ نہیں بن سکتا۔ اب یہ کیس وقف بورڈ کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ وزیر نے کہا کہ جو زمین مدعا علیہ کی بتائی جاتی ہے،  وہ حکومت کی ملکیت ہے۔ مدعا علیہ صرف قبضہ کرنے والا ہے۔ دیہی ترقی کے وزیر نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ اس زمین سے تجاوزات کو ہٹا دیں۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ یہ کس کی زمین ہے؟ہندوتوا تنظیمیں مسجد کے انہدام کا مطالبہ کررہی ہیں جبکہ سنیچر کو عدالت میں سماعت متوقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK