رکشا سے دھکا لگ جانے کو بہانہ بنا کر شر پسندوں نے شہر بھر میں توڑ پھوڑ مچا دی، دونوں طرف سے پتھرائو، گاڑیوں کوآگ لگا دی گئی، ڈیڑھ سو لوگوں کے خلاف معاملہ درج
EPAPER
Updated: October 09, 2024, 9:50 AM IST | Ali Imran | Akola
رکشا سے دھکا لگ جانے کو بہانہ بنا کر شر پسندوں نے شہر بھر میں توڑ پھوڑ مچا دی، دونوں طرف سے پتھرائو، گاڑیوں کوآگ لگا دی گئی، ڈیڑھ سو لوگوں کے خلاف معاملہ درج
پیر کی شام اکولہ شہر میں شر پسندوں نے ذرا سی بات کو فساد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ رکشا سے کسی بچے کو دھکا لگ جانے پر شروع ہوا یہ جھگڑا دیکھتے ہی دیکھتے مختلف علاقوں میں پھیل گیا اور بڑے پیمانے پر توڑ پھور نیز آتشزنی کی کوشش ہوئی۔ منگل کو پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتاریوںکا سلسلہ شروع کیا ۔ اس میں دونوں طرف کے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے پولیس پر جانبداری کا الزام بھی لگایا ہے۔
اطلاع کے مطابق اکولہ کے ’ جونا شہر‘ علاقے میں ضلع پریشد ٹاؤن اسکول کے قریب انصاری بینی والا اپنی رکشا لے کر جا رہے تھے کہ ان کی رکشا سے ایک بچے کو دھکا لگ گیا۔ اس پر بچے کے ساتھ موجود کسی شخص نے انصار کے ساتھ تکرار شروع کی۔ اتنی سی بات کو بہانہ بنا کر شر پسندوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور مسلم علاقوں میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ گاڈگے نگر، حمزہ پلاٹ، جے رام سنگھ پلاٹ، قبرستان پلاٹ، چاند خاں پلاٹ وغیرہ علاقوں میں پتھرائو کیا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فرقوںکے لوگ آمنے سامنے آ گئے اور پتھرائو ہونے لگا۔ شر پسندوں نے نہ صرف انصار بینی والا کی رکشا کو آگ لگا دی بلکہ موقع پر کھڑی مہاراشٹر ۲۴؍ نامی چینل سے وابستہ صحافی محسن غلام احمد کی بائیک کو بھی نذر آتش کر دیا۔ ان کے علاوہ مزید ۲؍ بائیک کو جلایا گیا۔
اطلاع ملتے ہیں پولیس ٹیم موقع پر پہنچی لیکن پولیس اہلکاروں کی تعداد سڑک پر اتری ہوئی بھیڑ کے مقابلے میں بے حد کم تھی۔ لہٰذا ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بچن سنگھ، اپر پولیس ایس پی ابھئے ڈونگرے، ایس ڈی پی او ستیش کلکرنی موقع پر پہنچے۔ اس کے علاوہ شہر کے تمام پولیس اسٹیشنوں سے پولیس اہلکاروں کو حالات پر قابو پانے کیلئے بلایا گیا۔ پولیس کو مشتعل ہجوم کو قابو میں کرنے کیلئے لاٹھی چارج کرنے کے علاوہ آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔ اس دوران موقع پہنچے فائر بریگیڈ عملے نے جل رہی گاڑیوں کو بجھایا اور راستے پر پڑے پتھروں کو ہٹا کر راستہ صاف کیا۔ احتیاط کے طور پولیس نے جونا شہر علاقے کو پولیس چھاؤنی میں بدل دیا ہے اور ملزمین کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کرد یا جوکہ منگل کو بھی جاری رہا۔
پولیس کے مطابق ۲؍ سے ۳؍ لوگ پتھراؤ میں زخمی ہوئے ہیں۔ اس معاملے میں پولیس نے کل ۴؍ ایف آئی درج کی ہیں۔ اس میں سے ایک ایف آئی آر یونس مدار بینی والے کی ہے جس میں شبھم شاہو، سونو ٹھاکر، چیتن شکلا، مہندر ٹھاکر اور دیگر ۲۵ سے ۳۰ افراد کے خلاف بی این ایس ۲۰۲۳ء کی دفعہ ۱۱۵(۲)، ۱۲۵، ۱۸۹(۲)، ۱۹۰، ۱۹۱(۲)، ۳۲۶(۱) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ ایک ایف آئی آر دھیرج سنگھ ٹھاکر نے درج کروائی ہے جس میں ۲۱؍ مسلم نوجوانوں کو نام بنام و دیگر ۱۵ سے ۲۰ نامعلوم ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایک ایف آئی آر اسسٹنٹ پولیس سب انسپکٹر ونود باجی راؤ ڈیگے کی ہے جس میں ۲۱؍ مسلم نوجوانوں کو نام بنام و دیگر ۱۰؍ سے ۱۵؍ مسلم نوجوان اور ۵؍ ہندو نوجوانوں کے نام و دیگر نامعلوم ۲۵ سے ۳۰ ہندو نوجوانوں کے نام شامل ہیں۔اس میں بی این سی کی دفعہ ۳۲۶ ؍اضافی شامل ہے۔ چوتھی ایف آئی آر امول سدھاکر کی ہے جس میں ۴؍ مسلم نوجوانوں کے نام شامل ہیں جبکہ دیگر میں ۵۰ سے ۶۰ مسلم نوجوانوں پر ۱۰۹، ۱۲۵، ۱۸۹(۲)، ۱۹۰، ۱۹۱(۲)، ۳۵۱ (۲)، ۳۵۲ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس فساد میں تقریباً ۱۵۰ سے زائد افراد ملزمین کی فہرست میں شامل ہیں جن میں سے ۲۱ افراد کو گرفتار کرکے منگل کو عدالت پیش کیا وہاں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ رہا ہونے والوں میں ۱۶؍ مسلمان ہیں اور ۵؍ غیر مسلم۔ باقی لوگوں میں سے ۳؍ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا گیا ہے اور بقیہ کو عدالتی تحویل میں دیا گیا ہے۔
اس دوران پولیس پر کچھ لوگوں نے جانبداری کا الزام بھی لگایا ہے۔ اس تعلق سے مجلس اتحاد المسلمین کے اکولہ صدر سید محسن علی نے وکیلوں کی ایک ٹیم کے ساتھ ویڈیو جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پولیس انتظامیہ اور محکمہ داخلہ سے گزارش کی ہے کہ جن لوگوں نے موقع پر شرپسندی کی ان پر کارروائی کی جائے نہ کئی کلو میٹر دور جا کر مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو گرفتار کیا جائے جیسا کہ پولیس کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک پولیس اہلکار کا بیچ دکھایا اور بتایا کہ پولیس نےپیر کی دیر رات مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو گرفتار کیا اس دوران خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔ یہ بیچ اسی دوران ایک گھر میں گر گیا تھا۔ بیچ پر سنیل دادا رائو رٹھے، پولیس سپاہی لکھا ہوا ہے۔