Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

سنبھل جامع مسجد کے رنگ و روغن کیخلاف فیصلہ پر برہمی

Updated: March 02, 2025, 12:03 AM IST | Sambhal

سنبھل سے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق نے محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت کے دعوئوں پر سوال اٹھایا ،کہا کہ حکومت اس مسجد کو بلاوجہ متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے

The Royal Jama Masjid of Sambhal is being continuously discussed and made controversial.
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تعلق سے مسلسل طومار باندھا جارہا ہے اور اسے متنازع بنایا جارہا ہے

 یہاں واقع  تاریخی جامع مسجد کے رنگ و روغن کی اجازت نہ ملنے اور ماہ رمضان کے باوجود اس مسجد کو سجانے کی اجازت نہ ملنے پر حکومت اور عدالت دونوں کے خلاف شدید برہمی اور ناراضگی پائی جارہی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ جس نے رنگ و روغن کی ضرورت نہ ہونے کی رپورٹ دی تھی کے خلاف تو سب سے زیادہ ناراضگی اور برہمی پائی جارہی ہے۔ اس سلسلے  میں سماجوادی پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق  نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان  میں کہا کہ مسجد میں رنگ و روغن کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ تمام عبادت گاہوں میں معمول کے مطابق ایسا ہوتا ہے۔ ویسے بھی رمضان شروع ہو رہا ہے اور ملک بھر کی مساجد میں رمضان سے پہلے پہلے رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور مساجد کو آراستہ کیا جاتا ہے لیکن یہاں تک بغیر کسی عذر کے اور بغیر کسی قابل اعتراض بات کے رنگ و روغن کی اجازت نہیں دی گئی ۔  ان کا کہنا تھا کہ وہ قانون اور عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر ہائی کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں خود عدالت کا نمائندہ شامل ہوتا تو رپورٹ کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) آخر کس کے کہنے پر کام کرتا ہے؟ یہ محکمہ صرف مسلمانوں کی عبادتگاہوں پر قبضہ کرنے اور اس کا بھگوا کرن کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ 
 قابل ذکر ہے کہ سنبھل کی جامع مسجد میں رنگ و روغن کے معاملے پر ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے محکمہ آثارِ قدیمہ (اے ایس آئی) کی رپورٹ کی بنیاد پر مسجد میں رنگ و روغن کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، البتہ صفائی کی اجازت دے دی گئی۔
 ضیاء الرحمن برق نے اس معاملے پر یوپی حکومت کے حلف نامے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایاجس میں دعویٰ کیا گیا کہ جامع مسجد سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔ برق نے کہا کہ یہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے کیونکہ اسلامی اصولوں کے مطابق کسی بھی مسجد کی تعمیر صرف خریدی گئی زمین پر کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے حکومت کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت نہیں ہیں ۔ اسی لئے وہ صرف اور صرف عوام کو گمراہ کررہی ہے۔اس تعلق سے دیگر مسلم ماہرین قانون  نے بھی شدید اعتراض کیا ہے اور کہا کہ رنگ و روغن کی وجہ سے نہ مسجد کی ہیئت میںکوئی فرق آتا نہ دیگر کوئی پریشانی ہوتی لیکن یوپی حکومت نے اپنا فرقہ پرست چہرہ ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ کی مدد سے اس مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ 
 یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میںسنبھل کی جامع مسجد میں اے ایس آئی کے سروے کے دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ کئی اب بھی مفرور ہیں۔ پولیس نے حالیہ دنوں میں مفرور افراد کی تصاویر عوامی مقامات پر چسپاں کی ہیں اور ان کے بارے میں اطلاع دینے والوں کیلئے انعام کا اعلان کیا ہے۔یہ معاملہ مسلسل سیاسی اور قانونی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جبکہ مسجد انتظامیہ اور مقامی مسلمان ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی امید کر رہے ہیں۔حالانکہ اس معاملے میں اگلے کچھ دنوں میں سماعت ہے جس میں فیصلے پر نظر ثانی کی امید کی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی تبھی ممکن ہو گا جب یوپی حکومت اور محکمہ آثارر قدیمہ اپنے موقف میں تبدیلی کرے اوررنگ و روغن کی اجازت دینے پر کوئی اعتراض نہ کرے لیکن ایسا ممکن ہو گا اس پر  شبہ  بہر حال برقرار ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK