Inquilab Logo Happiest Places to Work

مغربی بنگال میں صدر راج کے مطالبے کی عرضی پر برہمی

Updated: April 22, 2025, 12:46 PM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

سپریم کورٹ نے کہا: ہم پر پہلے ہی عاملہ کے اختیارات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جارہاہے،کیا ہم اب فرمان جاری کریں؟

The court also strongly objected to the language of two other petitions seeking an inquiry into the violence in Murshidabad. Photo: INN
عدالت نے مرشد آباد میں تشدد کےواقعہ کی جانچ کیلئے دیگر دو درخواستوں کی زبان پر بھی سخت اعتراض کیا۔ تصویر: آئی این این

مغربی بنگال کے مرشد آباد میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعہ پرریاست میں صدر راج لگانے کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آرگوئی اور اے جی مسیح نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےعرضی گزار سے سوال کیا کہ آیا اس کیلئے صدر جمہوریہ کو حکم جاری کیا جائے؟ بنچ نے عدلیہ کے خلاف تبصروں کے پس منظر میں کہا کہ ہم پر پہلے ہی عاملہ کے اختیارات میں مداخلت کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں،کیا عرضی گزار کی خواہش ہے کہ ہم مغربی بنگال میں صدرراج نافذ کرنے کیلئے فرمان جار ی کریں؟
پیر کو سپریم کورٹ میں مغربی بنگال کے دو عرضی گزاروں نے اپنی درخواست میں ریاست کے اندر تشدد کے واقعہ کے پیش نظر صدرراج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے بنچ کے سامنے عرضی کا ذکر کیا اور ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد مغربی بنگال میں تشددکے واقعہ پر صدر راج کے نفاذ کے لئے زیر التواء درخواستوں کے ساتھ اس کی سماعت کرنے کی بھی درخواست کی لیکن بنچ نے اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر راج نافذ کرنے کے لئے ایک فرمان جاری کریں۔‘‘
 اس کے علاوہ مغربی بنگال میں تشدد کے واقعہ پر جسٹس سوریہ کانت اور این کوٹیشور سنگھ کی بنچ میں بھی دو درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ان میں  مغربی بنگال کے مرشد آباد میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ تشدد کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایڈوکیٹ ششانک شیکھر جھا کی درخواست جلد بازی میں داخل کی گئی تھی اور اس میں بعض سرکاری عہدیداروں کے خلاف الزامات عائد کئے گئے حالانکہ ان عہدیداران کو درخواست میں فریق کے طور پر شامل نہیں کیا گیا تھا۔اس پر بنچ نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے خلاف اس طرح سے الزامات کیسے عائد کئےجاسکتے ہیں؟ بنچ نے ہدایت دی کی کہ عرضی میں ترمیم کی جائے۔بنچ نے عرضی میں استعمال کی گئی زبان پر بھی سخت اعتراض ظاہر کیا۔ بنچ کہا کہ آخر ان تمام باتوں کا ذکر عرضی میں کیوں کیا جارہاہے؟سپریم کورٹ ایک ریکارڈ کی عدالت ہے لہٰذا عرضی داخل کرتے وقت یا حکم جاری کرتے وقت محتاط رہنا چاہئے۔ بنچ نے  وکیل سے سوال کیا کہ آیا اس طرح کی باتوں کی عرضی میں ضرورت ہے؟اس پر ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس معاملے میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے اور تشدد کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے گھروں سے فرار ہیں۔جب بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوتی ہے تو آرٹیکل ۳۲؍ کا مطالبہ کیا جاتاہے، بنگال کے بہت سے لوگوں نے بھی ان  سے رابطہ کیا۔اس پر بنچ نے پھر سے سوال کیا کہ ’’یہ لوگ کہاں ہیں؟‘‘
 ایک عرضی ایڈوکیٹ وشال تیواری نے بھی دائر کی لیکن انہوں نے اس کو خود واپس لے لیا۔ تیواری میں اس میں چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے خلاف تبصروں سے متعلق پہلوؤں کو شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر بنچ نےکہا کہ وہ نئی درخواست دائر کریں، جوبھی اعتراضات اٹھانا چاہتے ہیں، وہ اٹھاسکتے ہیں لیکن ادارے کے وقارکو برقراررکھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK