بی جےپی سربراہ نے کانگریس کے۸۲؍ سالہ صدر کیلئے’’مجبور‘‘ اور ’’بھگوان آپ کو سمجھ دے‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا، راہل گاندھی کےخلاف بیان بازیوں کا دفاع بھی کیا
EPAPER
Updated: September 21, 2024, 10:11 AM IST | New Delhi
بی جےپی سربراہ نے کانگریس کے۸۲؍ سالہ صدر کیلئے’’مجبور‘‘ اور ’’بھگوان آپ کو سمجھ دے‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا، راہل گاندھی کےخلاف بیان بازیوں کا دفاع بھی کیا
راہل گاندھی کے خلاف بی جے پی لیڈروں کی مسلسل بیان بازیوں اوران کو جان کو لاحق خطرہ کے حوالے سےوزیراعظم نریندر مودی کو لکھے گئے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے خط کا جو جواب بی جےپی صدر اور مرکزی وزیر جے پی نڈا نے دیا ہے اس پر شدید تنقیدیں ہورہی ہیں۔ خط میں راہل گاندھی کو ’’ناکام پروڈکٹ‘‘ کہہ کر اُن کے خلاف بی جےپی لیڈروں کی بیان بازیوں کا یہ الزام عائد کرکے دفاع کیا گیا ہےکہ مودی کے خلاف راہل بھی ایسی ہی بیان بازیاں کرچکے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ۸۲؍ سال کے لیڈر کیلئے نڈا کے خط میں ’’مجبور ‘‘جیسے الفاظ کا استعمال کیاگیاہے اور خط کے اختتام ’’بھگوا آپ کو سمجھ دے ‘‘جیسے توہین آمیز جملے سے کیاگیاہے۔ نڈا کے اس خط پر کانگریس میں سخت برہمی ہے جس کا اظہار پارٹی کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے جمعہ کو اپنے ایک طویل ٹویٹ میں کیا۔
پرینکا گاندھی بزرگ لیڈر کی توہین پر برہم
پرینکا گاندھی نے نڈا کے مکتوب کو ’سطحی اور جارحانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی کو لکھے گئے خط کا جواب وزیراعظم کی جانب سے آنا چاہئے تھا۔انہوں نے مودی سے سوال کیا ہے کہ’’آخر ایک سینئر لیڈر کی بے عزتی کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انہوں نے کہا ہے کہ ’’وزیراعظم کو اگر جمہوری قدروں، برابری کی گفتگو اور بزرگوں کے احترام کا پاس ہوتا توخط کا جواب وہ خود دیتے۔ اس کے بجائے انہوں نے نڈا کی طرف سے سطحی اور جارحانہ قسم کا جواب لکھوا کر بھجوا دیا۔ ‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ ’’۸۲؍ سال کے ایک بزرگ عوامی لیڈر کی توہین کی آخر کیا ضرورت تھی؟‘‘
پرینکاگاندھی نے متوجہ کیا ہے کہ’’ جمہوریت کی روایت اور ثقافت سوال پوچھنے اور مکالمے کی ہوتی ہے۔ مذہب میں بھی عزت اور شائستگی جیسے اقدار سے کوئی بالاتر نہیں ہوتا۔ آج کی سیاست میں بہت زہر بھر چکا ہے، وزیر اعظم کو اپنے عہدے کے وقار کا پاس رکھتے ہوئے واقعی ایک الگ مثال قائم کرنی چاہیے تھی۔ اپنے ایک سینئر ساتھی کے خط کا عزت کے ساتھ جواب دیتے تو عوام کی نظر میں ان کی شبیہ اور وقار میں اضافہ ہوتا۔‘‘ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’یہ افسوسناک ہے کہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہمارے لیڈروں نے ان عظیم روایات کو مسترد کر دیا ہے۔‘‘
مودی کو کھرگے نے خط کیوں لکھا تھا؟
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے اپوزیشن لیڈرراہل گاندھی پر ذاتی اور توہین آمیز تبصرے کئے۔ اس پر کھرگے نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا جس میں ان بیانات پر افسوس اور راہل گاندھی کی سیکوریٹی کے تعلق سے فکرمندی کااظہار کیاگیاتھا۔ کھرگے کے خط کا جواب حیرت انگیز طور پرمودی کی طرف سے براہ راست نہیں آیا بلکہ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے دیا۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں مودی کیلئے کانگریس لیڈروں کے ذریعہ ’نیچ‘،’کمینہ‘ ، ’موت کا سوداگر‘، ’مودی تیری قبر کھدے گی‘، ’زہریلا سانپ‘ ،’بچھو‘، ’چوہا‘، ’راون‘، بھسما سور‘ ، ’نالائق ‘ اور ’کتے کی موت مرے گا‘ جیسے الفاظ اور جملوں کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے بین السطور میں راہل گاندھی کے خلاف بی جےپی لیڈروں کی بیان بازیون کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔
جےپی نڈا کے خط کا لب ولہجہ
جے پی نڈا نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ’’ کھرگے جی، سیاسی مجبوری کی وجہ سے آپ نے ایک بار پھر اپنے ناکام پروڈکٹ (راہل گاندھی)کو چمکانے کی ناکام کوشش کی ہے جسے عوام بار بار مسترد کر چکی ہے۔ آپ کس مجبوری کے تحت راہل گاندھی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں۔‘‘ نڈا نے اپنے خط میں صرف کھرگے کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ سونیا گاندھی پر بھی طنز کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’یہ راہل گاندھی کی والدہ سونیا گاندھی ہی تھیں جنہوں نے مودی جی کیلئے ’ `موت کاسوداگر‘ جیسی انتہائی متنازع اور تکبر سے پُر اصطلاح کا استعمال کیا تھا ۔ آپ اور آپ کی پارٹی کےدیگر لیڈروں نے کبھی بھی ان بیانات کی مذمت نہیں کی بلکہ ایک طرح سے اس کی حمایت ہی کرتے رہے۔‘‘ انھوں نے لکھا کہ ’’کھرگے جی آپ کس بنیاد پر راہل گاندھی کا دفاع کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ راہل گاندھی ہمارے وزیر اعظم کے تعلق سے بہت کچھ متنازع اور قابل اعتراض کہہ چکے ہیں۔ وہ چوکیدار ہی چور ہے والی بات ہو یا پھر پورے اوبی سی سماج کو چور کہنے کی بات ہو ، یا پھر وزیر اعظم کی پٹائی کی بات ہو ۔ یہ تمام باتیں آپ کو بھی معلوم ہیں۔‘‘ نڈا کے مطابق’’ گزشتہ ۱۰؍ سال میںکانگریس پارٹی نے وزیر اعظم مودی کیلئے ۱۱۰؍ سے زائد متنازع اور توہین آمیز الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے کہ ملک کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی اب اپنے ’شہزادے‘ کے دباؤ میں `کاپی اینڈ پیسٹ پارٹی بن چکی ہے۔‘‘ نڈانے راہل گاندھی پر پاکستان نوازوں اور دہشت گردی کی حمایت کرنےوالوں کا ساتھ دینے کا الزام بھی عائد کیا۔