عرضی گزار سماجی کارکن اندو پرکاش سنگھ نے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی تعداد میں پورے ملک میں اضافہ کئے جانےکےاقدام کو چیلنج کیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 03, 2024, 1:02 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
عرضی گزار سماجی کارکن اندو پرکاش سنگھ نے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی تعداد میں پورے ملک میں اضافہ کئے جانےکےاقدام کو چیلنج کیا ہے۔
سپریم کورٹ نےالیکشن کمیشن سے فی پولنگ اسٹیشن رائے دہنگان کی تعداد کو۱۲۰۰؍ سے بڑھاکر ۱۵۰۰؍ کیے جانے پر جواب طلب کیا ہے۔ عرضی گزار سماجی کارکن اندو پرکاش سنگھ نے پولنگ اسٹیشنوں پر رائے دہندگان کی تعداد میں پورے ملک میں اضافہ کئے جانےپرالیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کیا تھا۔ عرضی میں کہا گیاکہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ فی پولنگ اسٹیشن ووٹرس کی تعداد بڑھانے کے فیصلے کی کسی بھی ڈیٹا سے تائید نہیں ہوتی اور کمیشن کے مقاصد کی کوئی معقولیت نہیں ہے۔ اس میں استدلال کیا گیاکہ ۲۰۱۱ء کے بعد ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی اور اس طرح سے الیکشن کمیشن کے پاس ووٹرس کی تعداد کوفی پولنگ اسٹیشن ۱۲۰۰؍ سے ۱۵۰۰؍ کرنے کے لیے کوئی تازہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا تھاکہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ پولنگ اسٹیشن کے کام کرنے کی استعداد کے ساتھ سمجھوتہ کے ساتھ ممکنہ طور پر لمبی قطاروں اورزیادہ ہجوم کے ذریعہ رائے دہندگان کیلئے تھکاوٹ کابھی باعث ہے۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیاسنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے جواب طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے ای سی آئی سے پوچھا کہ اگر ایک پولنگ اسٹیشن پر۱۵۰۰؍ سے زیادہ لوگ پہنچیں گےتو صورتحال کو کیسے سنبھالا جائے گا؟کمیشن کی طرف سے پیش ایڈوکیٹ منیندر سنگھ نے دعویٰ کیا کہ پولنگ سٹیشن ۲۰۱۹ءسے ووٹروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر یہ فیصلہ لیا گیا جس میں سیاسی جماعتوں سے مشورہ بھی شامل ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے ہر بوتھ کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جاتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کمیشن سے اس کی وضاحت کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے زبانی طور پر مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فکر ہے کہ کوئی ووٹر پریشان نہ ہو۔ گزشتہ سماعت کے دوران، سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی نے دلیل دی تھی کہ فی پولنگ بوتھ ووٹروں کی تعداد میں ۱۲۰۰؍ سے ۱۵۰۰؍ تک اضافہ، ووٹرز کے لیے چیلنجز پیدا کرتا ہے اور یہ ووٹر کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کمیشن کے غیرمتوقع عارضی فیصلوں سے انتخابی عمل سے پسماندہ گروہوں کو خارج کرنے کا امکان ہے، کیونکہ وہ ووٹنگ کے لیے زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔