اس حلقے سے انوراگ ٹھاکر مسلسل ۳؍ بار منتخب ہوچکے ہیں، کانگریس ،بی جے پی کے اس قلعے میں سیندھ لگانے کیلئے پوری کوشش کررہی ہے
EPAPER
Updated: May 31, 2024, 7:41 AM IST | Mumbai
اس حلقے سے انوراگ ٹھاکر مسلسل ۳؍ بار منتخب ہوچکے ہیں، کانگریس ،بی جے پی کے اس قلعے میں سیندھ لگانے کیلئے پوری کوشش کررہی ہے
آٹھویں اورآخری انتخابی مرحلے میں یکم جون کو ہماچل پردیش کے ہمیرپورلوک سبھا حلقہ میں ووٹنگ ہوگی۔ بی جے پی کے مضبوط قلعہ تسلیم کئے جانے والے اس حلقے میں مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر بی جے پی کے امیدوار ہیں۔ وہ مسلسل ۳؍ بار اس حلقے سے انتخاب جیت چکے ہیں۔ اس بار کانگریس نے ان کے مقابل سابق رکن اسمبلی ست پال رائے زادہ کو میدان میں اُتارا ہے۔اس پارلیمانی حلقے میں دورخی مقابلے کا اندازہ ہے۔قابل ذکر ہے کہ ۱۷؍ عام انتخابات میں اس سیٹ پر بی جے پی نے ۱۰؍بار کامیابی حاصل کی ہے۔جن میں سے ٹھاکر خانوادہ ۶؍ٹرم میں یہاں سے نمائندگی کرچکا ہے۔ انوراگ ٹھاکر کے والد اور سابق وزیراعلیٰ پریم کمار دھمل اس حلقے سے ۳؍ بار رکن پارلیمان منتخب ہوچکے ہیں۔۲۰۱۹ء کے انتخابی نتائج کی بات کریں تو انوراگ ٹھاکر نے ۶؍لاکھ ۸۲؍ ہزار ۶۹۲؍ ووٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ جبکہ کانگریس امیدوار رام لال ٹھاکر کو محض ۲؍لاکھ ۸۳؍ ہزار ۱۲۰؍ ووٹ ملے تھے۔ اسی طرح ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں انوراگ ٹھاکر کو ۴؍لاکھ ۴۸؍ ہزار۳۵؍ ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس وقت کانگریس کے راجندر سنگھ رانا کو ۳؍لاکھ ۴۹؍ہزار ۶۳۲؍ ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
ایسے میں سیاسی گلیاروں میں اب یہ سوال قائم ہورہا ہے کہ کیا انوراگ ٹھاکر لگاتار چوتھی بار یہاں سے کامیاب ہوپائیں گے؟کیونکہ کانگریس نے یہاں پر اپنے امیدوار ست پال رائے زادہ کو کامیاب بنانے کیلئے تشہیری مہم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پرینکا گاندھی اور دیگر اہم لیڈران نے اس حلقے کا دورہ کیا ۔ ست پال رائے زادہ کے سیاسی کریئر پر نظر ڈالیں تو وہ اچھے خاصے تجربہ کار ہیں۔ وہ ۲۰۱۷ء سے۲۰۰۲۲ء تک اُونا صدر اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں انہیں ست پال سنگھ ستی نے شکست سے دوچار کیا تھا۔
خیال رہے کہ ہمیر پور لوک سبھا حلقہ ۱۷؍ ودھان سبھا حلقوں پر مشتمل ہے۔جن میں سے اسمبلی کی ۱۱؍سیٹوں پر بی جے پی اور ۶؍سیٹوں پر کانگریس کا قبضہ ہے۔بی جےپی کے اس مضبوط قلعے پر چڑھائی کیلئے اس بار کانگریس ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ اسی وجہ سے یہاں مقابلہ دلچسپ نظر آرہا ہے۔۱۲؍لاکھ سے زائد ووٹرزاب فیصلہ کس کے حق میں کرتے ہیں یہ چار جون کو واضح ہوجائے گا۔