مسلم اکثریتی بستی میں قدیم کنوئیں کی سیڑھیاں نظر آنے کے بعد کھدائی میں احتیاط، جے سی بی کی جگہ اب مزدوروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 3:16 PM IST | Agency | Lukhnow
مسلم اکثریتی بستی میں قدیم کنوئیں کی سیڑھیاں نظر آنے کے بعد کھدائی میں احتیاط، جے سی بی کی جگہ اب مزدوروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی
سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کے وقت مقامی مسلمانوں کی مزاحمت اور نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے تشدد کے بعد سے یو انتظامیہ یہاں ’’تیرتھ استھلوں‘‘ کی تلاش میں جٹ گئی ہے۔ اس مہم کا آغاز یہاں سے ہندوؤں کی نقل مکانی کی وجہ سے ۴۸؍ برسوں سے بند پڑے ایک مندر کو انتظامیہ کے ذریعہ دوبارہ کھولے جانے کےبعد ہواہے۔ اس دوران چندوسی علاقے کےمسلم اکثریتی محلہ لکشمن گنج میں کھدائی کے دوران ملبہ اور مٹی کے نیچے برسوں سے دبا ہوا سیڑھیوں والا کنواں دریافت ہوا ہے جس نے محکمہ آثار قدیمہ کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ بدھ کو محکمہ آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے مذکورہ جگہ کا دورہ اور فیصلہ کیا کہ آگے کی کھدائی بلڈوزر سے نہیں بلکہ احتیاط کے تقاضے کے پیش نظر مزدوروں سے کروائی جائے گی۔
صدیوں پرانی باؤڑی کے دریافت کا دعویٰ
چندوسی میں گزشتہ۴؍ سے ۵؍ دنوں سے ایک مقام پر جاری کھدائی میں صدیوں پرانی باؤڑی برآمد ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملی سیڑھیوں والے اس کنوئیں کی عمارت سطح در سطح سامنے آ رہی ہے۔ منگل کو جب چوتھے دن کی کھدائی ختم ہوئی تھی تب تک سیڑھیاں صاف نظر آنے لگی تھیں۔ منگل کو دن بھر نگرپالیکا کے۳۰؍ مزدور پھاؤڑے سے کنوئیں کی اوپری منزل سے مٹی ہٹانے میں مصروف رہے۔ شام ہونے تک باؤڑی کے اندر جا نے والی سیڑھی کے ۱۰؍ قدمچے واضح طور پر نظر آنے لگے۔ بدھ کی صبح بھی باؤڑی سے مٹی نکالنے کا کام جاری ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم نے جائزہ لیا
بدھ کو محکمہ آثار قدیمہ نے چندوسی میں برآمد ہونے والے اس ڈھانچے کا معائنہ کیا اور اب وہ اس بات پر غور کررہے ہیں کہ آگے کی کھدائی کس طرح جاری رکھی جائے۔ساتھ ہی یہ بھی طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مذکورہ کنواں کس کے دور کا بنا ہوا ہے۔ چندوسی میونسپلٹی کے ایگزیکٹیو آفیسر کرشن کمار سونکر نے بتایا کہ ’’بدھ کو کھدائی کے ۵؍ دن مکمل ہوگئے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ہمارے ساتھی یہاں موجودہیں ۔وہ صورتحال کا جائزہ اور آگے کی کارروائی کی حکمت عملی پر غور کررہے ہیں۔ برآمد ہونے والے ڈھانچے کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے اب جے سی بی مشین کو استعمال نہیں کیا جاسکتااس لئےہاتھ سے کھدائی کیلئے مزدوروں کی خدمات لی جارہی ہیں۔ اب تک سیڑھیاں اور کئی دروازے برآمد ہوئے ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کارروائی کتنے دنوں تک چلے گی۔ ‘‘
کنواں۴۰۰؍ اسکوائر میٹر پر محیط
امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ سیڑھیوں والا یہ کنواں ۴۰۰؍ اسکوائر میٹر پر محیط ہےا ور ۱۲۵؍ سے ۱۵۰؍ سال پرانا ہوسکتا ہے۔ اسےاس ’’بھسم شنکر‘‘ مندر سے جوڑ کردیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے انتظامیہ نے کچھ عرصہ قبل کھولا ہے۔و اضح رہے کہ سنبھل جامع مسجد کے دھاندھلی آمیز سروے کی وجہ سے پھوٹ پڑنے والے تشدد کے بعد سے سنبھل کے مسلم اکثریتی علاقے یوگی سرکار کے نشانے پر ہیں۔ یہاں ۴۸؍سال بعد ایک مندر کو کھول کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے ظلم کی وجہ سے ہندو نقل مکانی کرگئے اور مندر کو اقلیتی فرقے کے لوگوں نے بند کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مندر جس کی زمین پر بنی ہوئی ہے، اور جس نے خود نقل مکانی سے قبل مندر میں تالا لگایاتھا، اس نے یہ واضح کیا ہے کہ نہ نقل مکانی مسلمانوں کے دباؤ میں کی، نہ ہی مندر ان کے دباؤ میں بند کیاگیا۔ بہرحال حالات پر نظر رکھنےوالے افراد کا کہنا ہے کہ یوپی حکومت مندر کے ساتھ ہی یہاں کنوؤں کی کھدائی کے ذریعہ سنبھل کو تیرتھ استھل بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ محلہ لکشمن گنج میں مذکورہ مندر کے حوالے سے ’’سناتن سیوک سنگھ‘ ‘‘نامی تنظیم کارکنان نے سنیچر کو’ ’سمپورن سمادھان دیوس‘‘ مناتے ہوئے مندر کو پھر سے فعال کرنے اور مندر کے کچھ دوری پر گلی میں خالی پلاٹ میں باؤڑی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ سے کھدائی کی درخواست کی تھی۔ اسی بنیاد پر مذکورہ کھدائی کی گئی۔