• Sun, 16 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ارجنٹائنا: روہنگیا نسل کشی کیس میں برمی فوجی لیڈروں کےگرفتاری وارنٹ جاری

Updated: February 15, 2025, 5:01 PM IST | Buenos Aires

ارجنٹائنا کی عدالت نے روہنگیا نسل کشی کیس میں برمی فوجی لیڈروں کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کئے ہیں۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۷ء میں شدید کریک ڈاؤن میں لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ میانمار میں اب بھی انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لاکھوں روہنگیا بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

بین الاقوامی انصاف کیلئے ایک تاریخی اقدام میں، ارجنٹائنا کی ایک عدالت نے روہنگیاؤں کے خلاف نسل کشی میں ان کے کردار کیلئے برمی فوجی حکام بشمول کمانڈر ان چیف من آنگ ہلینگ کے بین الاقوامی گرفتاری وارنٹ جاری کئے ہیں۔ برمی روہنگیا آرگنائزیشن (بروک) کی جانب سے جمعہ کو اعلان کیا گیا یہ فیصلہ روہنگیا اور برمی فوج کے مظالم کا شکار ہونے والے دیگر متاثرین کے خلاف کئے گئے جرائم کیلئے احتساب کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ واضح رہے کہ روہنگیا، میانمار میں ایک بنیادی طور پر مسلم نسلی اقلیت، کئی دہائیوں سے نظامی امتیازی سلوک، تشدد اور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف شدید کریک ڈاؤن ۲۰۱۷ء میں ہوا تھا جب برمی فوج نے رخائن میں ایک وحشیانہ مہم شروع کی، جس میں ہزاروں افراد ہلاک، دیہات مسمار کئے گئے، اور بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب کیا۔
اس کے بعد ۷؍ لاکھ سے زیادہ روہنگیا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہوئے، جہاں وہ اب پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں جہاں ضروریات تک محدود رسائی ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوج کے اقدامات کو ’’نسلی تطہیر کی درسی کتاب کی مثال‘‘ اور نسل کشی قرار دیا ہے۔ بیونس آئرس کی عدالت کی جانب سے وارنٹ گرفتاری کی درخواست میں ۲۲؍ فوجی اہلکاروں اور تین شہریوں کے خلاف حکم جاری کیا گیا ہے، جن میں من آنگ ہلینگ اور ڈپٹی کمانڈر ان چیف سو ون شامل ہیں، نیز ۲۰۱۷ء کے کریک ڈاؤن کے دوران قتل اور جنسی تشدد جیسے مظالم میں براہ راست ملوث ہونے والے نچلے درجے کے افسران۔ ان الزامات میں ارجنٹائنا کے قانون کے تحت نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، سنگین قتل، جنسی زیادتی اور تشدد شامل ہیں۔
اس حکم کے بعد بروک کے صدر تون کھن نے کہا کہ ’’یہ روہنگیا اور برما میں برمی فوج کے زیر اثر ہر شخص کیلئے انصاف کی جانب ایک تاریخی قدم ہے۔ یہ روہنگیا کیلئے امید کی کرن ہے جو دہائیوں کی نسل کشی کا شکار ہیں، اور اپنے خاندانوں اور ثقافت کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ یہ مقدمہ ۲۰۱۹ء میں بروک اور تون کھن کی طرف سے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندہ تھامس اوجیا کی قانونی نمائندگی میں شروع کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ عدالت کے فیصلے میں عام شہریوں، خاص طور پر سابق ریاستی کونسلر آنگ سان سوچی اور سابق صدر ہٹن کیاو کے وارنٹ گرفتاری بھی شامل ہیں۔ بروک نے ابتدائی طور پر صرف فوجی حکام کے وارنٹ کی درخواست کی تھی اور بعد میں عدالت سے برما کے موجودہ سیاسی تناظر کا حوالہ دیتے ہوئے آنگ سان سوچی اور ہٹن کیاو کے وارنٹ جاری کرنے پر نظر ثانی کرنے کو کہا تھا۔ تاہم عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے وارنٹ جاری کر دیئے۔
یاد رہے کہ یہ پیش رفت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان کے نومبر ۲۰۲۴ء میں من آنگ ہلینگ کے وارنٹ گرفتاری طلب کرنے کے فیصلے کے بعد ہوئی ہے۔ اگرچہ آئی سی سی نے ابھی تک درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا ہے، ارجنٹائنا کی عدالت کا فیصلہ پراسیکیوٹر کو وارنٹ جاری کرنے کی خودکار درخواست کو متحرک کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انٹرپول من آنگ ہلینگ کیلئے ’’ریڈ نوٹس‘‘ جاری کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK