یہاں جاری اسرائیلی حملوں کا اثر مغربی کنارے میں واقع بیت لحم میں بھی دیکھا جارہا ہے، یہ وہ شہر ہے جو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 12:26 PM IST | Agency | Gaza
یہاں جاری اسرائیلی حملوں کا اثر مغربی کنارے میں واقع بیت لحم میں بھی دیکھا جارہا ہے، یہ وہ شہر ہے جو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔
یہاں جاری اسرائیلی حملوں کا اثر مغربی کنارے میں واقع بیت لحم میں بھی دیکھا جارہا ہے، یہ وہ شہر ہے جو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔ غزہ جنگ کے سبب اس سال بھی کرسمس کا تہوار اداسی کے ماحول میں منایا جائے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کرسمس کے موقع پر مقبوضہ علاقے کے فلسطینی قصبے میں جوش و خروش اور خوشی جو عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہیں نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ سالوں میں دیکھی گئی تہوار کی روشنیاں اور دیوہیکل درخت(کرسمس ٹری) بھی جو عموماً مینجر اسکوائر کو جگمگاتے تھےنداردہیں۔ اسی طرح اس علاقے میں مارچ کرنے والے بینڈز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس مقام پر غیر ملکی سیاحوں کے پہلے کی طرح ہجوم ہوں گے۔ ہوٹل بھی خالی پڑےہیں۔ فلسطینی سیکوریٹی فورسیز نے نیٹیویٹی چرچ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس موقع پر قصبے کے میئر انٹون سلمان نے کہا کہ بیت المقدس کا پیغام ہمیشہ امن اور امید کا پیغام رہا ہے۔ ’’ن دنوں، ہم دنیا کو اپنا پیغام بھی بھیج رہے ہیں : امن اور امید کا، لیکن اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا کو فلسطینی عوام کے طور پر ہمارے مصائب کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ‘‘ کرسمس کے تہوار کی روایتی سرگرمیوں کی منسوخی قصبے کی معیشت کیلئے ایک شدید دھچکا ہے۔ بیت لحم کی آمدنی کا تقریباً۷۰؍ فیصد حصہ سیاحت سے حاصل ہوتا ہے۔ تقریباً ساری آمدنی کرسمس کے موسم میں ہوتی ہے اور اس بار بھی تہوار پھیکا پھیکا سا لگ رہا ہے۔
کرسمس کیسے مناؤں؟میرے پاس بچا ہی کیا ہے: ایک فلسطینی عیسائی کاسوال
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں رہنے والے رمیز سوری نامی عیسائی شخص نےاداس لہجے میں کہا کہ’’کرسمس کیسے مناؤں، میرے پاس بچا ہی کیا ہے، مذہبی رسم جیسے تیسے ادا کررہے ہیں، ہمارا غم کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتااور سب کچھ تو برباد ہوگیا، پھر خوشی کیسے منائیں، ہم بس خدا سے امن کی دعا کررہے ہیں ‘‘رمیز یہاں کے قدیم یونانی آرتھوڈکس چرچ کے احاطے میں سوتے ہیں، پچھلے سال یہاں اسرائیل نے بمباری کی تھی جس میں رمیز کا گھر تباہ ہوگیا اور اس کے ۳؍ بچے اس حملےمیں وفات پاگئے۔ خیال رہے کہ اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ کے عیسائی بھی بے گھر ہوگئے ہیں۔ ہزاروں فلسطینی عیسائی باشندے غزہ کے دو چرچوں (سینٹ پروفیریئس اور ہولی فیملی چرچ) میں پناہ گزیں ہیں۔