• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جونیئر کے جی سے دسویں جماعت تک اسکول سے ایک دن کا بھی ناغہ نہیں!

Updated: January 22, 2025, 10:54 AM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi

بھیونڈی کے الحمد ہائی اسکول اینڈ جونیئرکالج کی طالبہ آشنا انصاری۱۲؍برسوں تک ایک بھی دن اسکول سےغیرحاضر نہیں رہیں۔

Ashna Mahmood Alam Ansari. Photo: INN
آشنا محمود عالم انصاری۔ تصویر: آئی این این

آج کے دور میں جہاں تعلیم کے دوران غیر حاضریاں ایک عام بات سمجھی جاتی ہے، وہاں الحمد ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی طالبہ، آشنا محمود عالم انصاری، نے اپنی مستقل مزاجی اور عزم کے ذریعے سب کو حیران کر دیا۔ انصاری چال، روشن باغ میں رہنے والی اس طالبہ نے جونیئر کے جی سے دسویں جماعت تک مسلسل ۱۲؍برسوں میں ایک بھی دن بھی اسکول سے غیر حاضر نہ رہنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ آشنا کا کارنامہ نہ صرف قابل تعریف بلکہ نوجوان طلبہ کے لئے ایک مشعلِ راہ بھی ہے۔ اس سفر میں آشنا نے کئی چیلنجز کا سامنا کیا۔ بیماری کے دوران بھی اس نے اسکول جانا ترک نہیں کیا۔ وقت پر دوالی، اسکول جاتے وقت دوا کی کڑوی گولیاں اپنے بستے میں رکھ کر علم کی پیاس بجھانے نکل جاتی۔ سردی، گرمی، بارش، خاندان کی دیگر مصروفیات و دیگر مشکلات کے باوجوداسکول میں اس کی حاضری ہمیشہ ۱۰۰؍ فیصد رہی۔ کوئی بھی عذراس کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ 
 آشنا کا خواب ڈاکٹر بننا ہے اور وہ اپنی تعلیم کو لے کر اتنی سنجیدہ ہے کہ اسکول جانا اس کیلئے سب سے اہم فریضہ ہے۔ وہ کہتی ہے ’’میری تعلیم کا واحد ذریعہ اسکول ہے۔ اگر میں اسکول نہیں جاؤں گی تو استاد کے سمجھائے ہوئے سبق سے محروم ہو جاؤں گی اور یہ میرا بڑا نقصان ہوگا۔ ‘‘اس نے شروع سے ہی تعلیم کو ایک اہم ذمہ داری کے طور پر لیا۔ والدین نے رہنمائی کی اور اس میں تعلیم کے لئے محبت اور شوق پیدا کیا۔ آشنا کی والدہ شبانہ انصاری نے بتایا کہ دوسری جماعت میں آشنا کی آنکھ میں تکلیف تھی۔ بہترعلاج کیلئے ہم اسے پریل کے ایک معروف اسپتال لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم آشنا کی ضد تھی کہ وہ اپنا علاج ممبئی میں اس شرط پر ہی کرائی گی کہ آمد رفت کے سبب اس کے اسکول کا ناغہ نہ ہو، ہم نے بہت کوشش کی لیکن وہ اسکول سے غیر حاضر رہنے کو تیار نہیں تھی۔ اسکول کا ناغہ نہ ہو اس لئے آشنا کو لے کر میں صبح ۵؍ بجے اسپتال کیلئے نکل جاتی، علی الصباح پریل پہنچتی تو عام طور پر اسپتال میں پہلا نمبر ہمارا ہی ہوتا تھا۔ چیک اپ کے بعد اسپتال سے نکل کر ہم بس میں سوار ہوتے۔ دوران سفر اس کا بال باندھ دیتی تھی۔ دوپہرساڑھے ۱۲؍ بجے اسکول شروع ہوتا تھا۔ نانی یونیفارم، ٹفن اور بستہ تیار رکھتیں، گھرپہنچ کر وہ فوراً اسکول چلی جاتی۔ یہ عزم اور محنت دیکھ کر اساتذہ بھی حیران رہ جاتے تھے۔ شبانہ انصاری نے کہا کہ ’’ہم نے ہمیشہ آشناکو سکھایا کہ تعلیم کا سفر صرف کامیابی کے لئے نہیں بلکہ ایک بہتر انسان بننے کے لئے ہے۔ اس نے ہمارے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی اور ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو پورا کیا۔ ‘‘
 الحمد ہائی اسکول کے اساتذہ اس کی استقامت اور محنت کے معترف ہیں۔ الحمد ایجوکیشن سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ریاض الدین خان نے کہا’’ ’اس کی مستقل مزاجی نہ صرف دیگر طلبہ کیلئے ایک مثال ہے بلکہ ہم سب کیلئے بھی متاثر کن ہے۔ وہ نہ صرف اسکول آتی تھی بلکہ اپنی تعلیم میں بھی نمایاں رہی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK