’اے ایس آئی‘ کے سابق سربراہ کے کے محمد کاانتباہ، کہا: ہمیں بھی افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 12, 2025, 11:34 AM IST | Agency | New Delhi
’اے ایس آئی‘ کے سابق سربراہ کے کے محمد کاانتباہ، کہا: ہمیں بھی افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائریکٹر کے کے محمد نےاہل وطن کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو ہندوستان کو بھی افغانستان اور شام جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خیال رہے کہ اتر پردیش کے سنبھل میں شاہی جامع مسجد کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ ہندو فریق وہاں مسجد میں نماز پر پابندی اور پوجا کی اجازت چاہتا ہے۔ سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود ذیلی عدالت نے وہاں آناً فاناً سروے کی اجازت دے دی تھی۔ اس کے بعد سروے کے نام پر وہاں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اور جس طرح سے سنبھل کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے اورپورا خطہ ہفتوں تک دہشت میں رہا۔ کئی دنوں تک انٹرنیٹ معطل رہا اور شہر میں کرفیو بھی نافذ کرنا پڑا تھا۔ بعد میں حالات معمول پر آئے اور پھر سروے کے ساتھ ساتھ کھدائی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ گزرتے دن کے ساتھ کئی اور مسجدوں پر دعوے کئے گئے۔ ملک کے اسی رجحان اور جگہ جگہ کھدائی کے سلسلے کے دوران اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) کے سابق ڈائریکٹر کے کے محمد کا یہ سخت تبصرہ سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم ہر مسجد میں اسی طرح مندر تلاش کرتے رہے اور اس رجحان کو اسی طرح تقویت دیتے رہے تو ہندوستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
کے کے محمد کا کہنا ہے کہ ہر مسجد کے اندر مندر کی تلاش مناسب نہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے ہندوستان کی حالت افغانستان، شام اور اسرائیل جیسی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے خانہ جنگی والی حالت کسی بھی ملک کیلئے مناسب نہیں ہے۔ یہ بیان سابق اے ایس آئی ڈائریکٹر نے اجین میں دیا جہاں وہ ’وکرم اُتسو‘ میں شریک ہونے پہنچے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم مان سکتے ہیں کہ کئی مندروں پر مساجد کی تعمیر ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ہم ہر مندر میں مسجد تلاش کریں۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو اس سے تنازع بڑھے گا اور ملک میں بدامنی پھیلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسلئے ضروری ہے کہ ایسے تنازعات کو بیٹھ کر سلجھالیا جائے۔
کے کے محمد نے کاشی اورمتھرا تنازع پر بھی اپنی رائے ظاہر کی۔ انھوں نے ان دونوں مقامات سے متعلق مسلمانوں سے بڑا دل دکھانے کی گزارش کی اور کہا کہ وہ کاشی اورمتھرا ہندوؤں کے حوالے کر دیں۔ کے کے محمد نے اس موقع پر عبادت گاہوں سے متعلق قانون یا پھر بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرنے کی جرأت نہیں دکھا سکے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد کسی بھی عبادت گاہ پر کوئی دعویٰ نہیں کرسکے گا۔