Updated: August 18, 2024, 6:06 PM IST
| Guwahati
آسام کے کاچھر ضلع میں مسلم نوجوان علی کی ایک لڑکی کے ساتھ بات چیت کے دوران ہندو نوجوانوں کے ایک گروپ نےعلی سے اس کا نام پوچھ کر حملہ کردیا۔ ہجوم نے اس پر لوجہاد کا الزام لگایا۔ ویڈیو موجود ہونے کے باوجود پولیس نے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے علی ہی پر POCSO کے تحت مقدمہ درج کرکےاسے گرفتار کرلیا۔
بجرنگ دل کی مداخلت کے بعد معاملہ مزید بڑھ گیا۔ تصویر: آئی این این۔
آسام کے کاچھر ضلع میں پولیس نے جمعہ کو ایک مسلمان لڑکے کو گرفتار کیا۔ اسے ایک خاتون دوست سے بات کرنے پر ہندو نوجوانوں کے ہجوم کے ذریعہ مارا پیٹا گیا۔ ہجوم نے اس پر’’لو جہاد‘‘کا الزام لگایا ہے۔ صبح۸؍ بجے کے قریب جب علی اور لڑکی اسکول کے قریب آپس میں بات چیت کر رہے تھے تو ہندو برادری کے لڑکوں کاایک گروپ اس کے سامنے آگیا اور اس کا نام پوچھا۔ بارہویں جماعت میں زیر تعلیم علی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے میرا نام پوچھا اور جب میں نے علی احمد کہا تو انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ وہ تقریباً۲۰؍لوگ تھے۔ بعد میں اور بھی لوگ آئے۔ میں ان میں سے کسی بھی لڑکے کو نہیں جانتا تھا۔ پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں نوجوان(علی اور لڑکی)ایک ہی اسکول میں دسویں جماعت تک ساتھ پڑھے تھے۔
واقعے کی ویڈیوز آن لائن وائرل ہو گئی۔ ایک ویڈیو میں، علی بغیر شرٹ کے اور کھمبے سے بندھے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ علی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اسے رسی سے کھینچ کر ایک ہجوم کے سامنے پریڈ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران علی کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا جبکہ لڑکی ڈر کی وجہ سے رونے لگی تھی۔ ہجوم کے ذریعہ تششد کے دوران علی بار بار مدد کی التجا کررہا تھا اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس کا لڑکی کے ساتھ کوئی محبت کا رشتہ نہیں ہے۔ ہجوم نے لڑکی کے ساتھ بھی مارپیٹ بھی کی۔ بعد ازاں علی کے اہل خانہ نے اس کے خلاف شکایت درج کروائی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ تاہم، لڑکی کے گھر والوں کی شکایت پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ کاچھر کے ایس پی نمل مہتا نے ’’اسکرول‘‘ کو بتایا کہ لڑکے کو لڑکی کے بیان کی بنیاد پر POCSO (پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسول آفنس ایکٹ) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: پونے: برگرکنگ شہر میں واقع ’’برگر کنگ‘‘ سے ٹریڈ مارک کی قانونی جنگ ہار گیا
سونائی پولیس اسٹیشن کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ لڑکے نے میسجنگ پلیٹ فارم وہاٹس ایپ پر لڑکی کو ایک فحش ویڈیو بھیجی تھی اور اس نے شروع میں اپنا تعارف دوسرے غیر مسلم نام سے کرایا تھا۔ پولیس اہلکار نےمزید کہا کہ لڑکی نے انکار کیا کہ وہ رشتے میں ہے لیکن لڑکے نے کہا کہ وہ ہم جماعت ہیں اور اسی اسکول میں دہم تک ساتھ پڑھے ہیں۔ اسے بنیادی طور پر’’پوکسو‘‘الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ لڑکے کے حملے کے سلسلے میں ایک نابالغ شخص سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ علی کے چچا رحیم الدین نے الزام لگایا کہ شروع میں یہ ہجوم تھا جس نے ان کے بھتیجے کو مارنا شروع کیا تھا لیکن ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کی مداخلت کے بعد معاملہ مزید بڑھ گیا۔ رحیم الدین کے مطابق علی کو بجرنگ دل کے دباؤ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میرے بھتیجے کو بری طرح مارا پیٹا گیا اور ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ یہ سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔ بتا دیں کہ یہ واقعہ۴؍ اگست کو آسا م کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کے اس بیان کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ آسام جلد ہی ایک قانون متعارف کرائے گا جس میں لو جہاد کے مقدمات میں عمر قید کی سزا دی جائے گی۔