• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آسام: مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش ناکام

Updated: October 17, 2024, 11:10 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے شہریت قانون میں دفعہ ۶؍اےکی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا،شہریت کیلئے ۲۵؍مارچ ۱۹۷۱ء کی تاریخ کو معقول قرار دیا،تارکین وطن کی وجہ سے مقامی آبادی کی ثقافت متاثر ہونے کے دعویٰ کو بھی مسترد کردیا،جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپ ،آمسو اور دیگر کی قانونی جیت،آسام کے لاکھوں مسلمانوں میں خوشی کی لہر

: All Assam Students Union celebrated by setting off fireworks after the Supreme Court came to Kafisala.
سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے بعد آل آسام اسٹوڈنٹس یونین نے آتش بازی کرتے ہوئے جشن منایا۔

 فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ آسام میں ۵۰؍ لاکھ مسلمانوںکو شہریت سے محروم کرنے کی سازش اس وقت پوری طرح ناکام ہوگئی جب سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے شہریت ایکٹ۱۹۵۵ءکی دفعہ ۶؍ اے کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھاجس میں آسام معاہدے کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس فیصلہ سے آسام کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چڈ، جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش اور منوج مشرا نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا جبکہ جسٹس پاردی والا نے۶؍اے کے بارے میں اپنا اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے اس کوغیر آئینی قراردیا۔جمعیت علماء ہند کے دونوں گروپ، آمسو اور دیگرکے عرضی پر آئینی بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آسام معاہدہ غیرقانونی نقل مکانی کے مسئلہ کا سیاسی اور دفعہ۶؍اےقانونی حل تھا۔بنچ نے کہا کہ دفعہ۶؍اے مقامی آبادی کے تحفظ کی ضرورت کے ساتھ انسانی ہمدردی کے خدشات کو متوازن کرنے کے لئے نافذ کی گئی تھی ۔چیف جسٹس نے تبصرہ کیا کہ کسی بھی صوبے میں دوسری قوموں کے لوگوں کی رہنے سے اس ریاست کے ثقافتی حقوق متاثر نہیں ہوں  گے۔ 
 سپریم کورٹ آف انڈیا کے تاریخی فیصلے سے آسام میں جشن برپا ہو گیا ہے جبکہ فرقہ پرستوں کی صفوں میں ماتم کی لہر دوڑ گئی ہے کیوں کہ اس قانون کی مذکورہ شق کو چیلنج کرتے ہوئے فرقہ پرست مسلسل آسام کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کررہے تھےلیکن اب انہیں نچلا بیٹھنے پر مجبور ہو نا پڑے گا۔ اس ایکٹ کی رُو سے جو شخص بھی ۲۵؍ مارچ ۱۹۷۱ء سے پہلے آسام میں رہ رہا تھا وہ اور اس کی اولاد ہندوستانی شہری شمار کی جائے گی۔ اس ایک فیصلے سے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی۔ بینچ کے چار ججوں، بشمول چیف جسٹس، نے اس فیصلے کی حمایت کی جبکہ جسٹس جے بی پاردیوالا نے علیحدہ رائے پیش کی۔یہ دفعہ۱۹۸۵ء میں آسام معاہدے کے بعد قانون کا حصہ بنی تھی جو کہ اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ ۶؍ سالہ تحریک کے بعد ہوا تھاجس میں آسام میں بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مہاجرین کو شہریت دینے اور آسام کے ’مقامی‘ باشندوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم سوالات کا جواب دیتا ہے۔  
 ۲۰۱۲ء میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ دفعہ ۶؍ اے کے آسام میں خصوصی طور پر اطلاق سے ریاست کی آبادیاتی ساخت میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس کا ریاست کی معاشی اور سیاسی صورتحال پر منفی اثر پڑا ہے اور یہ آسام کے لوگوں کی ثقافتی بقا اور ملازمت کے مواقع کو نقصان پہنچا رہی ہے۔دوسری جانب، مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۱۱؍کا حوالہ دیا ہےجو پارلیمنٹ کو شہریت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے جبکہ دوسرے فریقین، بشمول این جی او `سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس نے دلیل دی کہ اگر دفعہ ۶؍ اے کو کالعدم قرار دیا گیا تو آسام میں کئی دہائیوں سے شہریت کے حقوق رکھنے والے لوگ ’بے وطن‘ ہو جائیں گے اور انہیں غیر ملکی تصور کیا جائے گا۔ جمعیت علماء ہند مولانا ارشد مدنی اورآمسوکی طرف اس مقدمہ کی پیروی سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئرایڈوکیٹ سلمان خورشید، سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ، ایڈوکیٹ مصطفی خدام حسین اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی  نے کی ۔
 اس معاملے میں کانگریس نے ردعمل دیا اور کہا کہ ہماری حکومت نے آسام کے لوگوں کے مفاد میں جو کام کیا ہے وہ صحیح تھا اور اب سپریم کورٹ نے بھی اس موقف پر مہر لگا دی ہے۔ کانگریس لیڈر گورو گوگوئی نے کہا کہ میں آسام معاہدے کی حمایت کرنے کے معزز سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ آسام معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ تھا جس نے برسوں کی سیاسی کشمکش کے بعد ریاست میں امن بحال کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سیاسی اختلافات کے باوجود آسام میں امن کے لئے طلبہ لیڈروں سے بات کی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK