• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسمبلی ضمنی الیکشن: مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پھولپور میں ترقی پر بات نہیں کی جاتی!

Updated: November 10, 2024, 11:06 AM IST | Allahabad

پھولپور اہم ا سمبلی سیٹ ہے لیکن یہاںکے ووٹرمطمئن نہیں ہیں، ان کاکہنا ہےکہ یہاں سے جیتنے والے امیدواروں نے لوگوں کو یقین دہانی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اترپردیش کے ضلع پھولپور اسمبلی میں۲۰؍نومبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ترقی نہیں بلکہ ذات پات ایک بڑا موضوع بن کر سامنے آیا ہے۔ بی جے پی کے پروین پٹیل کے ایم پی منتخب ہونے کے بعد خالی ہوئی سیٹ کیلئے یہاں پر ضمنی الیکشن ہورہا ہے۔پھولپور کی شناخت ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے پارلیمانی  انتخابی حلقے کے طور پر ہوتی ہے جس میںپھابھامئو،سوراؤں، پھولپور،الہ آباد ویسٹ اور الہ آباد نارتھ اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ پھولپور اسمبلی حلقے  کے ضمنی  الیکشن میںبی جے پی کے دیپک پٹیل، سماج وادی پارٹی کے مجتبیٰ صدیقی اور بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) کے جتیندر سنگھ، آزاد سماج پارٹی کے شاہد خان سمیت کئی آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔بہر حال  اصل حریف بی جے پی اور ایس پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے ۔ یہاں ترقی پر ذات پات کا موضوع بھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس سے پہلے ۱۳؍ نومبر کو ووٹنگ ہونی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے اس کی تاریخ بڑھا کر اب ۲۰؍نومبر کردی ہے۔  مقامی انتخابی تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں ہورہے ضمنی الیکشن میں ترقی یا عوام سے جڑے اہم مسائل تعلیم، صحت، اور روزگار پر بات نہیں ہورہی ہے ۔ یہاں کی سیاست پوری طرح ذات پات کے درمیان الجھ کر رہ گئی ہے۔  اندراگاندھی کے وقت انڈین فارمرس فرٹیلائزرس کوآپریٹیو لمیٹڈ کمپنی(افکو) کھلی ہے۔ یہی یہاں ترقی یاروزگار کا ذریعہ ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پنڈت نہرو نے بھی یہا ں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ۔ یہاں سے جیت کر لوک سبھا پہنچنے والے یا اسمبلی الیکشن جیتنے والے لیڈر لوگوں کو تیقن کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ 
گزشتہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پٹیل برادری کا ہی دبدبہ اس سیٹ پر رہا ہے۔ چاہے کانگریس کا امیدوار ہو، جنتا دل، سماج وادی پارٹی یا بی جے پی کا، سبھی میں پٹیل کا ہی دبدبہ رہا ہے ۔ الگ الگ پارٹیوں سے ایم پی کیلئے رام پوجن پٹیل ۱۹۸۴ء تا ۱۹۹۸ء ، سماجوادی پارٹی نے پٹیل برادری کے جنگ بہادر پٹیل ، ۱۹۹۹ء میں  دھرم راج پٹیل (ایس پی)،۲۰۱۸ء میں ناگیندر پٹیل(ایس پی) کو میدان میں اتار کر سیٹ پر اپنا دبدبہ قائم رکھا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں کیسری دیوی پٹیل اور۲۰۲۴ء  میں بی جے پی سے ہی پروین پٹیل نے جیت کا علم بلند کیا ۔پھولپو ر سیٹ پر رائے دہندگان میں بی جے پی کی ذات پات کی سیاست سے کہیں نہ کہیں ناراضگی  بھی جھلک رہی  ہے ۔ مقامی شخص سریش سنگھ کہتے ہیں کہ بی جے پی بھلے ہی ذات پات کے معاملات سے اوپر اٹھ کر کام کرنے والی پارٹی کہی جاتی ہے لیکن پھولپور میں لگاتار پٹیل ذات سے ہی کیوں امیدوار اتاررہی ہے ۔ یہاں اور بھی ذات کے لوگ ہیں، کیا وہ اہل نہیں ہیں۔سنگھ کا کہنا ہے کہ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھی بی جے پی نے پٹیل برادری سے تعلق رکھنے والی کیسری دیوی پٹیل کو الیکشن لڑایا تھا اور وہ جیت گئی تھیں۔۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں کیسری دیوی پٹیل کا ٹکٹ کٹا تو لگا کہ اس بار کسی دوسری ذات کے لیڈر کو موقع ملے گا لیکن بی جے پی نے وہیں کے ایم ایل اے پروین پٹیل کو ٹکٹ دیا اور کم ووٹوں سے وہ ایم پی منتخب ہوئے ۔ پروین کے ایم پی منتخب  ہونے کے بعد اب یہاں ضمنی الیکشن  پٹیل برادری کے سابق ایم پی کیسری دیوی  پٹیل کے بیٹے دیپک پٹیل کو ٹکٹ دیا گیا۔
پھولپور بازار کے ایک کاروباری محمد قاسم کا ماننا ہے کہ یہاں برسوں سے کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی ۔ روزگار، تعلیم، صحت وغیرہ جو اہم چیزیں ہیں امیدوار اس پر کوئی تبادلہ خیال نہیں کرتے ۔ صرف ہوا ہوائی باتیں کرتے ہیں۔ ۲۰۱۷ء  سے دیکھا جائے تو الیکشن بی جے پی ہی جیتتی آ رہی ہے لیکن جیسی حالت تب تھی ویسی ہی  اب ہے۔ پھولپور حلقے میں کل۴؍ لاکھ۷؍ ہزار ۳۶۶؍ رائے دہندگان ہیں۔  او بی سی رائے دہندگان فیصلہ کن کردار میں ہیں۔ خاص طور سے پٹیل اور یادو رائے دہندگان ۔مسلم ووٹ  بھی اہمیت رکھتے ہیں ۔اس سیٹ پر سب سے زیادہ تقریباً ۷۶؍ہزار پٹیل رائے دہندگان ہیں۔ دوسرے نمبر پر تقریباً۷۱؍ہزار ووٹر  یادو برادری کے ہیں ۔ تیسرے نمبر پر پنڈت تقریباً ۵۸؍ہزار، ایس سی/ایس ٹی تقریباً ۵۷؍ ہزار اور مسلم رائے دہندگان تقریباً ۳۸؍ ہزار ہیں۔ سماج وادی پارٹی یادو اور مسلم ووٹ بینک کے ساتھ ہی دلت ووٹ بینک کو راغب کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK