Updated: February 11, 2025, 11:01 PM IST
| Mumbai
عتیق انصاری انقلاب کے شعبہ ٔ کتابت سے وابستہ تھے جن کا اتوار کو دبئی میں انتقال ہوگیا۔ اخبار کی پیشانی پر انقلاب جس انداز میں لکھا ہوا ہے،یہ اُن ہی کی فنکاری کا نتیجہ ہے ہر چند کہ بعد میں اس میں چند تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں روزنامہ انقلاب کی ۶۰؍ ویں سالگرہ کے خصوصی شمارہ میں ان کا ایک انٹرویو اُن کے مضمون کی شکل میں شائع ہوا تھا جس میں اِس ماسٹ ہیڈ کی تیاری کی رُوداد بیان کی گئی ہے۔ اس انٹرویو کو اُن کےمضمون کی شکل روزنامہ انقلاب کے موجودہ ایڈیٹر شاہد لطیف نے دی تھی۔ عتیق احمد انصاری کے انتقال پر ان کیلئے خراج عقیدت کے طور پر اس مضمون کے بعض اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:(ادارہ)
انقلاب کی ۶۰؍ ویں سالگرہ پر شائع مضمون کا عکس
اخبار کی پیشانی پر اخبار کا نام جس انداز میں لکھا ہوا ہوتا ہے اور جو اس کی پہچان بن جاتا ہے اسے ’ماسٹ ہیڈ‘ کہتے ہیں۔ انقلاب کا یہ ماسٹ ہیڈ جو گزشتہ کئی برسوں سے چھپ رہا ہے، عتیق احمد انصاری صاحب کا بنایا ہوا ہے جو جے جے کالج آف آرٹس کے طالب علم رہ چکے ہیں اور بہت اچھے فنکار ہیں۔ ان دنوں گوریگاؤں میں تقریباً ریٹائرڈ لیکن خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کالموں میں عتیق احمد صاحب نے انقلاب سے اپنی وابستگی اور موجودہ ماسٹ ہیڈ کی تخلیق پر روشنی ڈالی ہے۔
مَیں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا جس میں حصول تعلیم کے لئے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ اس سلسلہ میں ہر طرح کی سہولت بھی بہم پہنچائی گئی۔ اپنے والدین کی خواہش کے احترام میں، مَیں نے ۱۹۵۴ء میں منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا اور ۱۹۵۵ء میں دہلی سے میٹرک کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے مجھے ممبئی آنا تھا چنانچہ یہاں آکر میں نے جے جے اسکول آف آرٹ میں داخلہ لے لیا۔ ممبئی بڑا شہر ہے۔ اخراجات بھی یہاں کے زیادہ ہی ہیں اس لئے مجھے جز وقتی ملازمت کرنی پڑی اور اس طرح روزنامہ ’ہندوستان‘ سے میری وابستگی ہوئی لیکن میرے فن خوشنویسی کو بانیٔ انقلاب مرحوم عبدالحمید انصاری کی شفقتوں کے سبب پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ شمیم زبیری صاحب میرے خوشنویسی کے نمونے دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے عبدالحمید صاحب سے میری سفارش کی اور مجھے انقلاب نیز کہکشاں سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ واضح رہے کہ اس دور میں ادارہ انقلاب ایک فلمی جریدہ کہکشاں بھی شائع کیا کرتا تھا۔
اخبار کی پیشانی پر ’انقلاب‘ کی کتابت کے بارے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس دور میں، مَیں نے اخبار ہٰذا کی ٹیم میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا، اس وقت جو ’ماسٹ ہیڈ‘ چھپ رہا تھا اسے فیض صاحب نے بنایا تھا جو مجھ سے بہت سینئر اور خط نستعلیق کے ماہر تھے تاہم انہوں نے جو ماسٹ ہیڈ تیار کیا تھا وہ عربی خط میں تھا۔انصاری مرحوم فن میں ندرت کے قائل تھے۔ ایک روز میرے ٹیبل کے قریب سے گزرے تو دیکھ لیا کہ مَیں نے ’انقلا‘ کے اوپر ’ق‘ کے قریب سے ’ب‘ بنانا شروع کیا ہے۔ انصاری صاحب کو یہ انداز پسند آیا اور خوش ہو کر یہ ہدایت دی کہ میں اس نئے ڈیزائن کو ڈیولپ کروں۔ مَیں نے اسے ڈیولپ تو کیا لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ’ب‘ کا نقطہ کہاں لگاؤں کیونکہ وہاں نقطہ کی جگہ نہیں نکل رہی تھی۔ آخرکار مَیں نے اسے درمیان میں رکھ دیا، ڈائمنڈ کے شیپ میں اور پھر اسے وہائٹ لائن سے علاحدہ کیا۔ ڈیزائن تیار ہوگئی تو وہ تین کالم میں تھی۔ مرحوم انصاری اور شمیم زبیری صاحب نے اسے بے حد پسند کیا اور مزید کسی تبدیلی کے بغیر جاری کر دیا۔آج، کئی برس گزر جانے کے بعد بھی اخبار ہٰذا کی پیشانی پر اپنے ہی ہاتھ کا لکھا ہوا ’انقلاب‘ دیکھتا ہوں تو فخر سے سینہ پھول جاتا ہے۔n