سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف عرضداشت مسترد ہونے کے بعد اورنگ آباد میں ہر کوئی یہی سوال کر رہا ہے کہ یہ عرضی فیصلہ رکوانے کیلئے داخل کی گئی تھی یا منظور کروانے کیلئے؟
EPAPER
Updated: August 15, 2024, 10:05 AM IST | Z.A Khan | Aurangabad
سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف عرضداشت مسترد ہونے کے بعد اورنگ آباد میں ہر کوئی یہی سوال کر رہا ہے کہ یہ عرضی فیصلہ رکوانے کیلئے داخل کی گئی تھی یا منظور کروانے کیلئے؟
اورنگ آباد نام تبدیلی کے خلاف داخل کی گئی پٹیشن کوسپریم کورٹ نے خارج کردیاہے۔ اس قانونی لڑائی میں شامل افراد کی نیک نیتی پر اب سوال اٹھنے لگے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جس موثر انداز میں پیروی کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں کی گئی۔ فیصلے کے وقت خود عرضداشت گزار اور ان کے وکیل سپریم کورٹ سے غیر حاضر رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے؟کس کے کہنے پر این سی پی کے لوگ سپریم کورٹ کیس لڑنے گئے؟ جبکہ پہلے ہی سے ایک پٹیشن داخل کی جاچکی تھی۔ کیا کانگریس اور این سی پی یہ دونوں پارٹیاں اورنگ آباد اور عثمان آباد والے معاملے کو الیکشن سے پہلے ہی ختم کردینا چاہتی تھیں تاکہ گلے میں پڑا طوق اتر سکے؟
اس تعلق سے جدوجہد کرنے والی تنظیم مسلم نمائندہ کونسل کے صدر ضیاء الدین صدیقی نے انقلاب کو بتایا کہ ہشام عثمانی کانگریس کے اورنگ آباد شہر صدر تھے جب مہا وکاس اگھاڑی حکومت نے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے احتجاجاً پارٹی سے استعفیٰ دیدیا اور اس فیصلےکےخلاف جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ مسلم نمائندہ کونسل نے ان کا ساتھ دیا۔ ادھر این سی پی کے مشتاق احمد نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی۔ ہائی کورٹ میں سب نے مل کر ان کا ساتھ دیا لیکن عدالت نے ایک طویل سماعت کے بعد اس عرضی کو مسترد کر دیا۔
ضیاءالدین احمد بتاتے ہیں کہ ہائی کورٹ میں عرضداشت مسترد ہونے کے بعد مسلم نمائندہ کونسل نے شہر کے باثر افراد سے گفت و شنید کی اور ایک اجلاس طلب کیا جس میں اس جدوجہد میں شامل تمام افراد کو مدعو کیا گیا تاکہ سپریم کورٹ جانے کیلئے ایک مؤثر حکمت عملی طے کی جاسکے لیکن این سی پی کے مشتاق احمد اس اجلاس سے غائب رہے، کونسل اور ہشام عثمانی نے اُن سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ضیاء الدین احمد کے مطابق اسی دوران سپریم کورٹ میں عثمان آباد کے نام کی تبدیلی کے تعلق سے داخل کی گئی عرضداشت مسترد کر دی گئی اسلئے ہشام عثمانی کا موقف یہ تھا کہ اسی بینچ کے روبرو عرضداشت داخل کرنے کے بجائے کچھ دن انتظار کیا جائے۔ آئندہ اگر بینچ تبدیل ہوتی ہے تو کوئی اقدام کیا جائے۔ لیکن مشتاق احمد نے آناً فاناً میں کسی کو کوئی اطلاع دیئے بغیر سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی۔ سماعت والے دن وہ خود بھی غیر حاضر رہے اور ان کے وکیل بھی عدالت نہیں پہنچے لہٰذا عدالت نے عرضداشت کو مسترد کر دیا۔
ضیاء الدین احمد کہتے ہیں کہ ہر کسی کاایک ہی سوال ہے کہ مشتاق احمد کو سپریم کورٹ جانا تھا تو انہوں نے مسلم نمائندہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی تھی؟ اور یہ کیوں کہا تھا کہ میں سپریم کورٹ نہیں جانا چاہتا؟ اور جب نہیں جانا چاہتے تھے تو اچانک بغیر کسی کو بتائے چلے کیوں گئے؟ انہوں نے ایک اور بات کی طرف اشارہ کیا کہ عثمان آباد کے معاملے میں جس شخص نے عرضداشت داخل کی تھی اس کا تعلق بھی این سی پی ہی سے تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں انتہائی لاپروائی برتی۔ کیس آن لائن فائل کیا گیا، سماعت ویڈیو کالنگ پر ہوئی جس میں اکثر مرتبہ وکیل کا مائک بند ہو جاتا تھا۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا، یہی کھیل اورنگ آباد کے ساتھ بھی کھیلا گیا۔
ضیاء الدین احمد کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ہمیں یہ لگ رہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے لوگوں کو آگے کرکے عجلت میں اس معاملے کو عدالت کے ذریعے ختم کروا دیا تاکہ اسمبلی الیکشن کے دوران انہیں مسلمانوں کے سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کے پاس یہ تاویل رہے کہ عدالت نے ہی فیصلہ سنا دیا ہے اب اس معاملے میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ ویسے سپریم کورٹ میں اب بھی ریوو پٹیشن کا متبادل باقی ہے۔
یاد رہے کہ مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت کی آخری کابینہ میٹنگ میں اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایکناتھ شندے نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس حکم کو منسوخ کر کے نیا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ نام کی تبدیلی کے معاملے پر مہایوتی اور مہا وکاس اگھاڑی دونوں کا موقف ایک ہی ہے۔