سیاسی اور تجارتی رقابت سمیت ہر پہلو سے جانچ کا اعلان، بشنوئی گینگ نے ذمہ داری قبول کی مگر پولیس نے تصدیق نہیں کی ۲۴؍ گھنٹہ بعد بھی آلہ قتل برآمد نہیں کیا جاسکا، ایک مفرور ملزم گرفتار، بقیہ دو ۲۱؍اکتوبرتک ریمانڈ میں ، پونے، پنویل اور کرلا میں مقیم تھےمرحوم کو سرکاری اعزاز کے ساتھ مرئن لائنس کے بڑا قبرستان میں سپرد خا ک کیاگیا، حامیوں کی بڑی تعداد اور سینئر لیڈرس کی شرکت۔
بابا صدیقی کے جلوس جنازہ کو سرکاری اعزاز کے ساتھ بڑا قبرستان پہنچایاگیا۔ تصویر: آئی این این۔
این سی پی کے سینئر لیڈر اور سابق ریاستی وزیر بابا صدیقی(۶۶؍ سال) کے سنسنی خیز قتل کے ۲۴؍ گھنٹے بعد بھی ممبئی پولیس نہ آلہ ٔقتل برآمدکرسکی نہ وجہ قتل کا پتہ لگاسکی۔ البتہ ایک مفرور ملزم پروین لونکر کو گرفتار کرلیاگیاہے۔ معاملے کی جانچ کیلئے ۱۵؍ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو ملک کے مختلف حصوں کیلئے روانہ ہوگئی ہیں۔ اس بیچ بابا صدیقی کے جسد خاکی کو اتوار کی رات ۱۰؍ بجے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ممبئی کے مرین لائنس میں واقع بڑا قبرستان میں ان کے خاندانی اوٹے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ تدفین میں پارٹی لائن سے اوپر اُٹھ کر شہر بھر سے پہنچنے والے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں نے شرکت کی۔ جلوس جنازہ کی روانگی سے قبل باندرہ مغرب میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ان کے آخری دیدار کیلئے ہزاروں سوگوار جمع تھے۔
نماز جنازہ اورجلوس جنازہ میں ہزاروں کی شرکت
تدفین میں شرکت اور آخری دیدارکیلئے باندرہ میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچنے والی بھیڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی رہائش گاہ کے آس پاس کی کئی سڑکوں پر ٹریفک نظام بُری طرح متاثر ہوگیا۔ مقامی افراد کو اپنے گھر پہنچنے کیلئے گاڑیاں دور دراز پارک کرکے پیدل جانا پڑا۔ بھیڑ کو قابو کرنا پولیس کیلئے دشوار ہوگیا تو اس نے ممبا دیوی حلقہ کے ایم ایل اے امین پٹیل کی مدد لی کہ وہ عوام سے اپیل کریں تاکہ دیدار کیلئے بھیڑ کی وجہ سے بھگدڑ نہ مچ جائے۔ امین پٹیل نے انقلاب کو بتایا کہ بابا صدیقی عوام میں اتنے مقبول تھے کہ ان کے آخری دیدار کیلئے لوگوں نے ۴، ۴ ؍ گھنٹوں تک قطار میں انتظار کیا۔ پہلی نماز جنازہ ان کی رہائش گاہ اور دوسری قبرستان پہنچ کر ادا کی گئی ۔ ان کی رہائش گاہ پر جم غفیر کی وجہ سے نماز جنازہ متعینہ وقت کے کافی بعد تقریباً ساڑھے ۸؍ بجے ادا کی جاسکی۔ اس کے بعد جنازہ کچھ دورپیدل اور پھر ایمبولنس میں مرین لائنس پر واقع بڑا قبرستان لے جایا گیا۔ سرکاری اعزاز کے تحت جنازہ کو ترنگے میں لپیٹا گیا اور تدفین سے قبل پولیس نے ہوائی فائرنگ کرکے انہیں الوداعی سلامی دی۔
جانچ کیلئے ۱۵؍ ٹیمیں تشکیل دی گئیں
ممبئی پولیس نے بابا صدیقی کے قتل کی ہر پہلو سے جانچ کا اعلان کرتے ہوئے اس کیلئے ۱۵؍ ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش اور جائے واردات سے۲؍ ملزمین کی گرفتاری کے بعدسپاری کلنگ کی بات منظر عام پر آئی ہے۔ اس دوران حالانکہ لارنس بشنوئی گینگ نے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے مگر پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے پیغام کے سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پولیس نے بتایا کہ وہ اس پیغام کی صداقت کی جانچ کررہی ہے۔ پولیس کی تفتیش اور ملزمین کی گرفتاری کے تعلق سے ڈپٹی کمشنر آف پولیس دتا نلاؤڑے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’جائے واردات سے ہی پولیس کے جوان راجندر دھاباڑے اوران کے ساتھیوں نے ۲؍ ملزمین گرمیت منجیت سنگھ اور دھرم راج کشیپ کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان کی تحویل سے ۲؍ پستول اور ۲۸؍ زندہ کاتوس برآمد ہوئے ہیں ۔ ‘‘ ان کا ۲۱؍ اکتوبر تک ریمانڈ حاصل کرلیاگیاہے۔ ڈی سی پی نے بتایا کہ بابا صدیقی کےقتل کیلئے آٹو میں سوار ہوکر۴؍ افرادآئے تھے جن میں سے ۲؍ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
قاتل اور آلہ ٔ قتل پولیس کے ہاتھ نہیں لگا
جس نوجوان نے بابا صدیقی پر فائرنگ کی اس کی شناخت شیوکمار گوتم کے طو رپر ہوئی ہے اور وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
بتایاجارہاہے کہ جس وقت این سی پی لیڈر پر حملہ ہوا اس وقت دُرگا کے وِسرجن کا جلوس نکل رہا تھا جس میں آتش بازی ہورہی تھی۔ آتش بازی کا فائدہ اٹھا کر حملہ آوروں نے پہلے دھوئیں والا بم پھینکا اور پھر گولی چلادی جس کی آواز پٹاخوں کی آواز میں کھوگئی البتہ دھواں چھٹتے ہی بابا صدیقی خون میں لت پت نظر آئے۔ شیوکمار گوتم جس نے ان پر ۶؍ راؤنڈ فائرنگ کی، دھوئیں اور وِسرجن کے جلوس کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس خبرلکھے جانے تک آلہ قتل برآمد کرنے میں بھی ناکام ہے۔
بابا صدیقی کے معمولات پر نظر رکھی جارہی تھی
ڈی سی پی دتا نلاؤڑے کے بقول ملزمین کئی دنوں سے بابا صدیقی کے روزانہ کے معمولات پر نظر رکھ رہے تھےاور حملہ کے دن سبھی ملزمین اسلحہ سے لیس ہو کر آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ فرار ہونے کیلئے مرچی کا اسپرے بھی لائے تھے جس کی ضرورت نہیں پڑی۔
سیاسی رنجش کے پہلو کی بھی جانچ ہوگی
لارنس بشنوئی گینگ کے نام سے جاری کئے گئے فیس بک پوسٹ میں حملے کی ذمہ داری لئے جانے کےبعد پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی سی پی نے بتایا کہ اس کی جانچ ہورہی ہے اور پولیس وجہ قتل جاننے کیلئے ہر پہلو سے جانچ کریگی۔ ملزمین کا ۲۱؍ اکتوبر تک ریمانڈ حاصل کرتے ہوئے کورٹ میں بھی پولیس نے کہا کہ چونکہ الیکشن کا وقت ہے اس لئے وہ سیاسی رقابت کے زاویہ سے بھی اس قتل کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔ پولیس ذرائع نے گرفتار کئے جانے والے دونوں ملزمین کا بشنوئی گینگ سے تعلق ہونے اور سپاری کلنگ کو انجام دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی نہیں کرلا میں گرفتارو فرار ملزمین کے کرایہ پر مکان لینے اور ۱۴؍ ہزار کرایہ دینے کے علاوہ ۳؍ لاکھ کی سپاری طے ہونے اور ملزمین کو خرچ کے لئے ۵۰؍ ۵۰ ؍ ہزار روپے دیئے جانے کابھی دعویٰ کیا ہے۔
پولیس کی ۲؍ ٹیمیں مدھیہ پردیش پہنچیں
مفرور ملزمین کی تلاش میں سرگرداں ممبئی پولیس کی ایک ٹیم مدھیہ پردیش پہنچ گئی ہے۔ ایک پولیس افسر نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایاہے کہ ’’ ایک مفرور ملزم کی تلاش میں ممبئی پولیس کی ایک ٹیم مدھیہ پردیش پہنچ گئی ہے۔ اتر پردیش کے بہرائچ سے تعلق رکھنے والے مفرور ملزم کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اجین یا اومکاریشور ضلع میں روپوش ہے۔ ‘‘
حملے میں ایک شخص ز خمی ہوا مگر شناخت مخفی
اتوارکو پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ بابا صدیقی پر حملہ کے دوران ایک اور شخص زخمی ہوا ہے تاہم اس کی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا جارہاہے۔