• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’بابری مسجد کیس کا فیصلہ انصاف کے نام پر دھوکہ ہے‘‘

Updated: December 07, 2024, 11:26 AM IST | Agency | New Delhi

سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نریمن نےعدلیہ کو آئینہ دکھایا، مسجد کی جگہ مندر کی تعمیرکے حکم کا پوسٹ مارٹم کیا، ملزموں کو بری کرنےوالے جج پر نوازش کا بھی حوالہ دیا۔

Babri Masjid which was demolished by Kar Sevaks in 1992. Picture: INN
بابری مسجد جسے۱۹۹۲ء میں کارسیوکوں نے شہید کردیا تھا۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ آف انڈیا  کے سابق جج، جسٹس روہنٹن نریمن نے جسٹس اے ایم احمدی میموریل لیکچر میں ملک کے عدالتی نظام کو آئینہ دکھاتے ہوئے دوٹوک لہجے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کیس میں انصاف نہیں ہوا بلکہ سپریم کورٹ کافیصلہ انصاف کے نام پر دھوکہ تھا۔ جمعہ کو  بابری مسجد کی ۳۲؍ ویں   برسی سے ایک روز قبل جمعرات کو ملک کے ۲۶؍ ویں چیف جسٹس  (جسٹس احمدی) سے منصوب پہلے لیکچرمیں  جسٹس آر نریمن  نے کہا کہ بابری مسجد تنازع  کے تعلق  سے سپریم کورٹ نے کئی برسوں پر محیط جو فیصلے سنائے وہ سیکولرازم  کے اصولوں کے مطابق انصاف پر مبنی نہیں تھے۔ انہوں نے بطور خاص ۲۰۱۹ء کے اس فیصلے کو ذ کر کیا جس میں سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کرنے کے بعدبھی کہ بابری مسجد کی شہادت  غیر قانونی  اور مجرمانہ عمل تھا نیز مسجد سے قبل وہاں مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا،مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم سنایا۔ انہوں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ جس جج نے بابری مسجد شہادت کے ملزمین کو بری کیا اسے بعد میں یوپی میں نائب لوک آیوکت مقرر کیاگیا۔ 
جسٹس نریمن نے کہا کہ ’’میری نظر میں  ان فیصلوں  میں انصاف کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ یہ ہوا کہ سیکولرازم  کے اصولوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔‘‘  واضح  رہے کہ جسٹس اے ایم احمدی میموریل لیکچر کا آغاز اسی سال سے کیاگیا ہے جس کا موضوع ’’سیکولرازم اور ہندوستانی آئین‘‘ تھا۔  انہوں نے  ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت کے اقدامات پر بھی تنقید کی اور یاد دلایا کہ ’’پہلے اس نے لبراہن کمیشن قائم کیا جو بلا شبہ ۱۷؍ برس تک سوتا رہااور پھر ۲۰۰۹ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ دوم اس نے ایودھیا تحویل اراضی قانون پاس کیا اور ساتھ  ہی ساتھ میں  کہوں گا کہ بڑے ہی شاطرانہ طریقے سے سپریم کورٹ میں یہ طے کرنے کیلئے  صدارتی ریفرنس بھی دائر کردیا کہ کیامسجد کے نیچے مندر تھا؟‘‘ اس کے بعد انہوں  نے بابری مسجد سے متعلق عدالتوں  کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر اسماعیل فاروقی و دیگر اور محمد اسلم بنام حکومت ہند(۱۹۹۴ء) ‘ کیس میں کورٹ کو  ایودھیا تحویل اراضی ایکٹ ۱۹۹۳ء  کے باجواز ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ کرنا تھا، ساتھ ہی یہ بھی طے کرنا تھا کہ بابری مسجد سے متعلق صدارتی ریفرنس کہ ’مسجد کے نیچے مندر تھا یا نہیں‘ قابل سماعت ہے کہ نہیں۔اس میں کورٹ  نے مذکورہ ایکٹ اور اس کے تحت  ۶۷؍ ایکڑ زمین کو تحویل میں لینے کے حکومت کے فیصلے پر مہر لگا دی۔ اس ایکٹ کے سیکشن ۷(۲) میں کہا گیا تھا کہ ۷؍ جنوری ۱۹۹۳ء کو یعنی جس تاریخ کو مذکورہ ایکٹ پاس ہوا ہےاس دن  ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ کی جو صورتحال تھی، وہ جوں کی توں رکھی جائے گی۔
اس طرح اس ’’جوں کی توں صورتحال‘‘ کا مطلب  یہ تھا کہ ہندو پجاریوں کو (بابری مسجد کو توڑ کر بنائے گئے عارضی مندر میں) پوجا کی اجازت ہوگی۔ اس نکتے پر بنچ دوالگ الگ آراء کی حامل تھی مگر ۲؍ کے مقابلے ۳؍ ججوں کی حمایت کی بنیاد پراکثریتی فیصلہ سنایاگیا۔ جسٹس احمدی نے اقلیتی فیصلہ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ قانون سیکولرازم کے سخت  خلاف ہے۔ 
جسٹس نریمن نے سپریم کورٹ کے ۲۰۱۹ء کے اس حتمی فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس کے تحت  چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں   ۵؍ رکنی بنچ نے بابری مسجد کی پوری ۲ء۷۷؍ایکڑ متنازع زمین رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو فریق کو سونپنے کا حکم دیا۔ انہوں نے اس دلچسپ نکتے کی جانب بھی نشاندہی کہ سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچ نے یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد کی شہادت قانون کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘  تھی۔ ۲۰۱۹ء کے متنازع فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس نریمن نے اس جواز پر سوال اٹھایا جو ۵؍ رکنی بنچ نے مسجد کی زمین مندر کی تعمیر کیلئے دیتے ہوئے پیش کیا ہے۔

 سپریم کورٹ کے سابق جج اور ماہرقانون (جسٹس روہنٹن نریمن) نے یاد دہانی کرائی کہ ’’مسجد ۱۵۲۸ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ ۱۸۵۳ء میں  تنازع ہونے تک وہ مسجد رہی۔  پہلی بار ۱۸۵۳ء میں  تنازع  ہوا۔ جس وقت تنازع ہوا اس کے فوراً بعد ملک کی باگ ڈور ایسٹ انڈیا کمپنی سے برطانوی  سلطنت نے اپنے ہاتھ میں  لےلی تھی۔اندرونی اور بیرونی صحن کے درمیان انگریزوں نے ایک دیوار بنا دی۔ اندرونی صحن مسجد کا احاطہ تھا اور بیرونی صحن احاطے سے باہر تھا۔اس دیوار کی تعمیر کے بعد دونوں طرف عبادت  ہونے لگی۔بیرونی احاطہ میں ہندو پوجا پاٹھ کرتے تھے اور اندرونی احاطہ میں مسلمان نماز ادا کرتے تھے۔ تو اس طرح یہ ایک ریکارڈ شدہ حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۹ء تک دونوں  طرف عبادت (ایک طرف پوجا، دوسری طرف نماز) ہورہی تھی...۱۹۴۹ء  میں ۶۰-۵۰؍ لوگ مسجد میں گھس گئے اور وہاں مورتیاں رکھ دیں جس کے بعد مسلمانوں کی عبادت روک دی گئی۔‘‘
 محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ بابری مسجد کی جگہ پر کی گئی کھدائی کی جو رپورٹ ۲۰۰۳ء میں پیش  کی گئی ، اس کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے جسٹس نریمن نے بتایا کہ اس کھدائی میں مختلف فرقوں کی علامتیں ملیں ، ان میں شیوکو خدا  ماننے والے،بدھ اور جین شامل ہیں۔ انہوں نے نشانزد کیا کہ سپریم کورٹ اس اہم نتیجے پر پہنچا کہ ’’بابری مسجد کے نیچے کوئی رام مندر نہیں تھا۔‘‘جسٹس نریمن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بخئے ادھیڑتے ہوئے کہا کہ ’’یہ طے ہوجانےکے باوجود کہ مسلمان  ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۹ء تک نماز پڑھ رہے تھے، عدالت نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس  پر (مسلمانوں کا) اکیلے قبضہ تھا، یہ متنازع تھا۔ عدالت  کے مطابق  یہ اس طرح  متنازع تھا کہ مسلمانوں کو  قانون کی سنگین  خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی ہٹانے کوششیں کی گئیں۔ کورٹ  نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ  ۱۸۵۷ء،  ۱۹۳۴ء اور  ۱۹۴۰ء میں ۳؍ باراس طرح کی کوشش ہوئی۔   اس کی بنیاد پر کورٹ یہ کہتا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ (مسلمان جس طرف نماز ادا کر رہے تھے اس طرف) ان کا قبضہ غیرمتنازع تھا۔ اس کے جو بھی مطلب نکلتے ہوں،  چونکہ(کورٹ کی نظر میں  )   اس طرف(مسلمانوں کی طرف) کاحصہ بھی  متنازع ہے، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اندرونی  حصے پر مسلمانوں کا خصوصی   اختیار ہے۔اس طرح کورٹ نے یہ اخذ کرلیا کہ (دیوار کے ) دونوں طرف کے حصہ متنازع ہیں اس لئے یہ پورا حصہ ایک ہی ہوا اور یہ پورا اب ہندوؤں کا ہوا۔‘‘
  سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ کے اس نتیجے پر پہنچنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جسٹس آر ایف نریمن نے کہا کہ ’’اہم بات یہ ہے کہ ہر بار قانون کی خلاف ورزی ہندو فریق کی جانب سے ہوئی۔اس کیلئے اصلاح کی ضرورت تھی،کسی کی بھی نظر میں یہ اصلاح کیا ہوسکتی تھی؟ یہی کہ مسجد دوبارہ تعمیر  کرکے دی جائےمگر ہوا یہ کہ ہم نے انہیں کچھ زمین دے دی کہ اپنے طورپر مسجد بنا لو۔‘‘ سپریم کورٹ کے سابق جج نے ملک کے عدالتی نظام کیلئے سخت ترین الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ یہ انصاف کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ تھا کہ ان ججوں نے سیکولرازم کو اس کا حق نہیں دیا۔ ‘‘
 انہوں نے   نشاندہی کی کہ بابری مسجد کو شہید کرنے والوں  کے خلاف کیس میں  جس جج نے  تمام ملزمین کو بری کرنے کا حکم سنایا،اسے سبکدوشی کے بعد اتر پردیش کا اُپ لوک آیُکت بنا دیا گیا۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ ’’یہ تو ہمارے ملک کی حالت ہے۔‘‘  انہوں نے یاددہانی کرائی کہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے انہوں نے  ۲۵؍ سال سے تعطل کے شکار اس مقدمہ پر از سر نو سماعت کا حکم سنایاتھا۔  جسٹس نریمن نے کہا کہ ’’اس سب کے باوجود سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج سریندر یادو جنہوں  نے مقدمہ کی شنوائی کی اور تمام ملزمین کو بری کردیا، کو سبکدوشی کے بعد یوپی میں نائب لوک آیوکت کے عہدہ پر فائز کردیاگیا۔ ‘‘
 البتہ انہوں نے   نشاندہی کی کہ  بابری مسجد کیس  کا ایک عمدہ پہلو یہ ہے کہ اس نے ’پلیس آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء ‘کی توثیق کی۔  انہوں نے حالیہ دنوں میں ملک بھر میں مساجد کے خلاف داخل کی جانےوالے پٹیشنوں  پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تمام عدالتوں کو بابری مسجد کیس کے فیصلے کے اُن ۵؍ صفحات کو پڑھ لینا چاہئےجو پلیس آف ورشپ ایکٹ سے متعلق ہیں۔  انہوں نے اپنا خطبہ یہ کہتے ہوئے ختم کیا کہ ’’ہمارافلسفہ رواداری کا درس دیتاہے، ہمارا آئین رواداری پر عمل کرتا ہے اس لئے ہم اسے کمزورنہ کریں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK