• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بیکری مالکان کی حکومت سے بجلی پر سبسڈی دینے کی اپیل!

Updated: August 25, 2024, 10:47 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

غیر سرکاری تنظیم کے ذریعہ بیکریوں میں لکڑی جلا کر اشیاء تیار کرنے سے فضائی آلودگی کا موضوع اٹھانےپر بیکری مالکان کا رد عمل، کہا:اگر لکڑی کا استعمال بند کرانا ہے تو بجلی میں رعایت دینی چاہئے۔

Use of wood in bakeries spreads air pollution which is harmful to health. Photo: INN
بیکریوں میں لکڑی کے استعمال سےفضائی آلودگی پھیلتی ہے جو صحت کیلئے نقصاندہ ہے۔ تصویر : آئی این این

ماحولیات اور آب و ہوا کی بہتری کیلئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم نے ممبئی میں واقع ۲۰۰؍ بیکریوں کا سروے کرنے کے بعد ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہر و مضافات کی ۴۷؍ فیصد بیکریوں میں بھٹیوں میں لکڑیاں جلا کر کھانے کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں اور اس کے دھوئیںسے فضائی آلودگی پھیلتی ہے جو لوگوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ انقلاب نے اس رپورٹ کے تعلق سے چند بیکری والوں سے گفتگو کی تو ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تبدیلی لانے کے تعلق سے سنجیدہ ہے تواسے بیکری والوں کیلئے الیکٹریسٹی سبسڈی یا دیگر کوئی پختہ منصوبہ لانا چاہئے تاکہ اس طرح کی بیکری چلانے والوں کا روزگار متاثر نہ ہو۔
 مدنپورہ میں بوہری جماعت خانہ کے سامنے واقع سینٹرل بیکری کے مالک ساجد علی شیخ نے انقلاب سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’اول تو تمام بیکریوں میں جو لکڑیاں جلائی جاتی ہیں وہ یکساں نہیں ہوتی۔ہم ببول کی لکڑی استعمال کرتے ہیں جس سے دھواں بھی کم نکلتا ہے اور وہ اتنا زیادہ مضر بھی نہیں ہوتا جتنا بھنگار سے خریدی ہوئی سستی لکڑیوں مثلاً فرنیچر، پلائی ووڈ وغیرہ جلانے سے ہوتا ہے۔ ببول کی لکڑی جلنے کے بعد ایک دم سے راکھ نہیں بنتی بلکہ کوئلہ میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر ہمارے کاریگر اس سے کھانا پکالیتے ہیں اس طرح ان کا بھی کام آسان ہوجاتا ہے۔‘‘
 انہوں نے مزید کہا کہ ان کی دادر علاقے میں واقع ایک بیکری میں ری ڈیولپمنٹ کی وجہ سے بھٹی کے بجائے الیکٹرک پر چلنے والے اوون پر اشیاء بنائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کھانے کی اشیاء تیار کرنے کا ماہانہ خرچ ۳۵؍ ہزار روپے سے بڑھ کر ۸۰؍ ہزار سے زیادہ پہنچ گیا ہے۔
 ساجد شیخ کے مطابق ’’ہر بیکری میں تو ممکن نہیں لیکن جن بیکریوں پر سولار پینل لگانے کی گنجائش ہے اگر حکومت ان کی مالی مدد کرے یا پھر اس سے بہتر یہ کہ بجلی پر سبسڈی دے تو لوگوں کیلئے لکڑی کی جگہ بجلی کے اوون کا استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔‘‘
 مولانا آزاد روڈ پر واقع ابرہیم بیکری کے مالک واصف انصاری نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ممبئی کی زندگی تیز رفتار والی ہے اور یہاں لوگوں کو کام کے دوران کھانے کیلئے بھی وقت نکالنا مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ پائو اور بریڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ مثلاً راستے میں وڑا پائو، کباب پائو،  بھاجی پائو، سینڈوچ یا چائے سے بسکٹ وغیرہ کچھ بھی کھاکر گزارا کرلیتے ہیں۔‘‘
 انہوں نے مزید کہا کہ ’’بیکری میں تیار ہونے والے پائو اور بریڈ وغیرہ سستے ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کے جیب پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا البتہ بیکریوں میں پائو وغیرہ تیار کرنے کیلئے جو ’روٹری اوون‘ آتے ہیں اگر انہیں صرف بجلی پر چلایا جائے تو اس میں بننے والی اشیاء بہت مہنگی ہوجائیں گی کیونکہ یہاں بجلی بہت مہنگی ہے۔‘‘ واصف کے مطابق جو روٹری اوون بازار میں ملتے ہیں وہ الیکٹریسٹی، ڈیزل، لکڑی اور گیس سے بھی چلتے ہیں۔ ان میں گیس اور لکڑی سے چلنے والے اوون سے جتنے سستے میں کام چل جاتا ہے اتنا ڈیزل اور الیکٹریسٹی سے نہیں ہوتا۔ چونکہ الیکٹریسٹی مہنگی ہے اس لئے حکومت بیکری والوں کیلئے بجلی سبسڈی جیسا کوئی منصوبہ لے کر آئے تو بیکری والے روایتی انداز کے بجائے اوون پر کام کرسکتے ہیں۔
 انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہماری بیکری ۱۹۴۰ء کی ہے اور شہر میں کئی بیکریاں برٹش کے زمانے کی ہیں اور انہی بیکریوں میں عام طور پر لکڑی پر پائو وغیرہ تیار کیا جاتا ہے لیکن ممبئی میں بڑے پیمانے پر پرانی عمارتوں کا ری ڈیولپمنٹ چل رہا ہے جس کی وجہ سے ویسے بھی روایتی بیکریاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔‘‘
 ایک بیکری مالک نے اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر کہاکہ ’’فضائی آلودگی پھیلنے کی بہت ساری وجوہات ہیں مثلاً پرانی گاڑیاں، تعمیراتی کام وغیرہ لیکن غیر سرکاری تنظیم نے بیکری کو منتخب کیا ہے، وہ ان کی مرضی ہے لیکن انہیں یہ بھی دھیان رکھنا چاہئے کہ کسی کاروبار میں کئی پہلو ہوتے ہیں۔ روایتی بیکری میں کوئی اشیاء تیار کرنے میں ۳؍ افراد کو روزگار ملتا ہے تو جدید بیکری میں وہ کام ایک شخص سے ہوجائے گا۔ اس طرح لوگوں کے روزگار کا بھی مسئلہ ہے اور ماضی کے مقابلے بھٹی والی بیکریوں کی تعداد پہلے ہی ہزاروں سے کم ہوکر چند سو تک رہ گئی ہے اور اگر حکومت مدد کیلئے آگے آئے تو بھٹی والی بیکریوں کے مالکان بھی بجلی سے چلنے والے اوون پر کام کرنے لگیں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK