وفد کی ڈپٹی میونسپل کمشنر(صحت) سے ملاقات ۔ بی ایم سی بیکری مالکان، فائرافسران، گیس اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کیساتھ میٹنگ کرے گی۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 11:53 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
وفد کی ڈپٹی میونسپل کمشنر(صحت) سے ملاقات ۔ بی ایم سی بیکری مالکان، فائرافسران، گیس اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کیساتھ میٹنگ کرے گی۔
بامبے بیکرس اسوسی ایشن (بی بی اے) کے ممبران نے ڈپٹی میونسپل کمشنر (صحت) سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کی ہے کہ بیکریوں میں کوئلے اور لکڑی کے بجائے گیس اور بجلی کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی مہلت ایک سال کیلئے بڑھائی جائے اور انہیں سبسڈی دی جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بی ایم سی آئندہ ماہ بیکری مالکان اور فائر بریگیڈ، اوون بنانے والوں اور بجلی سپلائی کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک میٹنگ کرے گی۔
بیکری کے کاروبار میں درپیش مسائل کے حل اور بیکری مالکان کی مدد کیلئے کام کرنے والی تنظیم بی بی اے نے جمعرات کو ڈپٹی میونسپل کمشنر سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ کے دوران تاجروں نے مطالبہ کیا کہ کوئلے اور لکڑی وغیرہ پر اشیاء پکانے کے روایتی طریقہ کو بند کرکے ایل پی جی یا پی این جی گیس یا پھر الیکٹرک اوون کو متبادل کے طور پر استعمال کرنے کیلئے بی ایم سی نے ۸؍ جولائی تک کی مہلت دی ہے جو اس کاروبار سے وابستہ افراد کیلئے بہت کم ہے کیونکہ اکثر و بیشتر تاجر اتنی کم مدت میں نہ تو اتنی رقم کا انتظام کرسکتے ہیں اور نہ ہی اوون وغیرہ رکھنے کیلئے پرانی جگہ پر تعمیراتی کام کرکے ڈھانچہ میں تبدیلی کرنے کے اخراجات برداشت کرپانا سب کے بس کی بات ہے۔
اس بنیاد پر ان تاجروں نے مطالبہ کیا کہ انہیں نہ صرف یہ کہ روایتی طریقہ سےنئے طریقہ میں آنے کیلئے کم از کم ایک سال کی مہلت دی جائے بلکہ گیس اور الیکٹریسٹی کے استعمال کی وجہ سے اشیاء تیار کرنے کے اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا اس لئے اس بوجھ کو کم کرنے کیلئے بیکری مالکان کو سبسڈی دی جائے۔
بی بی اے کے صدر ناصر انصاری کا کہنا ہے کہ روایتی طریقہ کار کو بند کرکے نئے طریقوں کو اختیار کرنے میں ابتدائی اخراجات کم از کم ۱۰؍ سے ۱۲؍ لاکھ روپے ہوتا ہے۔ جو لوگ جھوپڑ پٹیوں میں بیکری چلاتے ہیں انہیں ان علاقوں میں پائپ لائن سے گیس سپلائی ملنا محال ہے اور اس کے مقابلے الیکٹرک اوون مہنگا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پورے شہر میں بیکری مالکان کے جو حالات ہیں ان کے پیش نظر انہیں نئے طریقے میں منتقل ہونے کیلئے کم از کم مزید ایک سال کی مہلت اور سرکار کی جانب سے سبسڈی بھی درکار ہے۔ ان کے مطابق بی ایم سی نے سیکڑوں بیکریوں کو نوٹس جاری کیا ہے لیکن ان میں سے محض ۱۵؍ سے ۲۰؍ بیکری مالکان ہی اپنی پرانی بھٹیوں کو توڑنے کا کام شروع کرکے نئے اوون منگوانے کا آرڈر دے سکے ہیں۔
مدنپورہ میں واقع ابراہیم بیکری کے مالک واصف انصاری نے کہا کہ ’’تنظیم کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ کئی بیکریاں ایسی ہیں جو ۱۰۰؍ برسوں پرانی ہیں اور کئی پشتوں سے اس کاروبار میں ہیں، اب ۶؍ مہینے میں ان کیلئے موجودہ ’سیٹ اَپ‘ کو ختم کرکے نیا ڈھانچہ تیار کرنا اور نیا طریقہ اختیار کرنا کیسے ممکن ہوسکے گا؟‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مضافات میں پائپ لائن سے گیس مل جاتی ہے لیکن ممبئی میں یہ سہلوت نہیں ہے۔ اب بیکری والوں کو یہ سمجھنے میں بھی وقت لگے گا کہ گیس کے کتنے باٹلے کام میں صرف ہوتے ہیں، ان کے کیا اخراجات ہوتے ہیں، ان سے کتنا مال تیار ہوتا ہے اور کتنا وقت لگتا ہے وغیرہ۔ جتنی مہلت دی گئی ہے اس حساب سے اگر سارے بیکری والے بھٹی توڑ کر نیا ڈھانچہ تیار کروانے لگیں تو ممبئی میں پائو اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہی پوری نہیں ہوسکے گی۔ اس لئے مزید مہلت اور سبسڈی دونوں ضروری ہے۔ ‘‘
اس تعلق سے بی ایم سی کے ایک افسر نے کہا کہ ’’بیکری مالکان کی تشویش جائز ہے اور انہیں جو دقتیں درپیش ہیں ان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہائی کورٹ کا حکم ہے اس لئے متعینہ مدت میں یہ کام کرنا بھی ضروری ہے اس لئے ہم ان کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘ اس افسر نے سبسڈی کے تعلق سے کچھ نہیں کہا البتہ اتنا کہا کہ ان کے مسائل کے پیش نظر آئندہ ماہ بیکریوں کی تنظیم کے عہدیداران کے ساتھ گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے نمائندوں، اوون بنانے والوں اور محکمہ ماحولیات کے افسران کی میٹنگ رکھی جائے گی تاکہ بیکری والوں کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔