سپریم کورٹ کا اہم اقدام ، میونسپلٹی کے نوٹس کا سہارا لے کرسنبھل میں پھر سے تنازع پیدا کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا ،یوگی حکومت کو سخت وارننگ بھی دی
EPAPER
Updated: January 10, 2025, 10:51 PM IST | New Delhi
سپریم کورٹ کا اہم اقدام ، میونسپلٹی کے نوٹس کا سہارا لے کرسنبھل میں پھر سے تنازع پیدا کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا ،یوگی حکومت کو سخت وارننگ بھی دی
سنبھل میں ایک بار پھر تنازع پیدا کرنے کی کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب سپریم کورٹ نے شاہی جامع مسجد کے کنویں میں پوجا کرنےکے میونسپلٹی کے نوٹس پر عمل پیرا نہ ہونے کو یقینی بنانے کا حکم جاری کردیا ۔ اس سے علاقے کے تمام فرقہ پرستوں اور ماحول خراب کرنے کے لئے تیار بیٹھی تنظیموں کے منصوبوں پراوس پڑگئی ۔ میونسپلٹی کےنوٹس کی آڑ لے کرشر پسند ایک بار پھر تنازع کو ہوا دینا چاہتے تھےتاہم سپریم کورٹ میں مسجد انتظامیہ کمیٹی نے مدلل طور پر اپنی پیش کرتے ہوئے صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا۔ سپریم کورٹ نے ان دلائل سے اتفاق کرلیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ سنبھل شاہی جامع مسجد کمیٹی کی عرضی پر سماعت کررہی تھی جس میں ۱۹؍نومبر ۲۰۲۴ء کو ذیلی عدالت کے ذریعہ مسجد کے سروے کیلئے ایڈوکیٹ کمشنر کو مقرر کرنے کی ہدایت کو چیلنج کیا گیا تھا۔مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے سماعت کے دوران بنچ کی توجہ سنبھل میونسپلٹی کے نوٹس کی طرف دلائی جس میں مسجد کے کنویں کو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ کورٹ نے اس تعلق سے احکامات جاری کرتے ہوئے معاملہ کی اگلی سماعت ۲۱؍فروری کو مقرر کی ہے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس کی بنچ نے سوال کیا کہ مسجد کے کنویں کے دوسروں کے ذریعہ استعمال کرنے میں کیا حرج ہے؟تاہم ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے اس کے پس پردہ شرپسندانہ عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ میونسپلٹی کے نوٹس میں کنویں کو ’ہری مندر‘ بتایا گیا ہے،اب اس کو پوجا اور اشنان کیلئے استعمال کرنے کی تیاری ہے۔ انہوںنے مزید کہا کہ اس کنویں کا استعمال مسجد کے مقاصد کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ انہوںنے میونسپلٹی کے ذریعہ لگائے گئے پوسٹرس عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ کنواں مسجد کے دروازے پر واقع ہے، اس لئے اسے ہندوؤں کی پوجا کے لئے کھولنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ شر انگیزی کی جائے اور اس وقت علاقے میںامن وامان کی کمزور صورتحال کو مزید درہم برہم کیا جائے۔اس کے بعد بنچ نے ہدایت دی کہ میونسپلٹی کے نوٹس پر کسی بھی صورت میںعمل نہیں کیا جائے گا۔عدالت عظمیٰ نے دوہفتہ میں اس معاملے کی رپورٹ بھی طلب کی اور اس دوران یوگی حکومت کو حالات قابو میں رکھنے کی سخت ہدایت بھی دے ڈالی۔
حالانکہ فریق مخالف کے وکیل اور اترپردیش حکومت نے میونسپلٹی کے نوٹس کے عمل درآمد پر روک کی مخالفت کی۔وشنو شنکر جین اوراترپردیش حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کی عرضی کی مخالفت کی۔کے ایم نٹراج نے دعویٰ کیا کہ سنبھل میں صورتحال پرامن ہے اور عرضی گزار مسئلہ پیدا کرنا چاہتا ہے تاہم حذیفہ احمد ی نے اترپردیش کی یوگی حکومت کو متعصب قرار دیتے ہوئے اس کی دعویٰ کی نفی کی۔انہوںنے کہا کہ یہ کنواں آدھا مسجد کے اندر اور آدھا مسجد کے باہر ہے۔اس کے بعد چیف جسٹس نے حکم جاری کرنے سے قبل نقشوں اورتصاویر کی جانچ کی ۔بنچ نے کہا کہ ہم اس معاملے پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں تاکہ امن وہم آہنگی برقرار رہے۔ انہوں نے یوپی حکومت کے وکیل کو واضح طور پر کہا کہ کورٹ یہ چاہتا ہے کہ علاقے میں امن و امان برقرار رہے اور اس کے لئے سرکار کو مناسب قدم اٹھانے پڑیں گے ۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے عبادتگاہوں کے تحفظ قانون پر سماعت سے قبل ملک بھر میں مساجد اور درگاہوں کے سروے پرروک لگادی تھی۔عدالت عظمیٰ نے ذیلی عدالتوں کوہدایت دی تھی کہ تاحکم ثانی سروے کے مقدمات درج نہ کئے جائیں۔سنبھل کی شاہی مسجد کے مشکوک انداز میں سروے کی وجہ سے ہی مقامی مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی تھی۔